مدینہ طیبہ کے تاریخی و مقدس مقامات

تاریخ کے اوراق

مدینۂ طیبہ کے تاریخی ومقدس مقامات

*مولانا محمد آصف اقبال عطاری مدنی

ماہنامہ اگست 2024

کائنات کے عظیم شہر مدینۂ منوّرہ میں ایسے بہت سے مقامات ہیں جو اپنی نسبتوں اور تاریخی یادوں کے سبب بابرکت اور مقدس ہوگئے، اہلِ ایمان شروعِ اسلام سے ہی ان کے ساتھ اپنی عقیدتوں کا اظہار کرتے چلے آرہے ہیں، بعض متبرک مقامات کا تذکرہ یہاں کیا جاتا ہے۔

جنت البقیع:

 یہ مسجدِ نبوی شریف کے جوارِ رحمت میں جنوب مشرقی جانب واقع مدینۂ منورہ کا قدیم اور مشہورومبارک قبرِستان ہے، بعدِ وصال صحابَۂ کرام کی تدفین کے لیے خاص طور پر یہ جگہ منتخب کی گئی، رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:مجھے اس جگہ (بقیع کے انتخاب) کا حکم ہوا ہے۔ ([i])عربی میں بقیع درخت والے میدان کو کہتے ہیں اس میدان میں پہلے غَرْقَد کے درخت تھے اسی لئے اس جگہ کا نام ”بقیعُ الْغَرقد“ ہوگیا۔([ii]) عرب لوگ عُمُوماً اپنے قبرِستانوں کو جنّت کہہ کر پکارتے ہیں اسی لئے”جنت البقیع“پکاراجانے لگا۔([iii])یہاں تقریباً 10ہزار صحابَۂ کرام، اَجَلَّہ اہلِ بیتِ اطہار، بے شمار تابعینِ کرام،تبع تابعین اور اولیائے عِظام اوردیگر خوش بخت مسلمان مدفون ہیں۔([iv])چند مشہور نام یہ ہیں: امیر المؤمنین حضرت عثمان غنی، امیر المومنین حضرت امام حسن مجتبیٰ،سیدہ کائنات خاتونِ جنت فاطمۃ الزہراء، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عباس بن عبدالمطلب، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف، اُمُّ المؤمنین عائشہ صدیقہ و دیگر اُمہات المؤمنین،حضرت ابراہیم بن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم، حضرت ابوہریرہ اور حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہم اجمعین۔([v]) مہاجرین میں سے سب سے پہلے حضرت عثمان بن مظعون اور انصارمیں سے سب سے پہلے حضرت اسعد بن زُرَارَہ رضی اللہُ عنہما جنت البقیع میں دَفن ہوئے۔([vi]) زائرین مدینہ کے لیے علمائے کرام فرماتے ہیں:قبرستان جنت البقیع کی زیارت سنت ہے روضَۂ منورہ کی زیارت کرکے وہاں جائے خصوصاً جمعہ کے دن۔([vii])

جبل احد:

یہ ایک جنتی پہاڑ ہے جو مدینہ پاک کے شمال میں واقع ہے، اس کی بلندی 3533 فٹ ہے، غزوہ اُحد اسی پہاڑ کے دامن میں پیش آیا تھا۔بہت سی احادیثِ مبارکہ میں ثواب اور گناہ کو بیان کرنے کے لئے اس پہاڑ کی مثال دی گئی ہے،حضور پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اس پہاڑ سے محبت ہے، ارشاد فرمایا:احد يحبنا و نحبه جبل من جبال الجنة ترجمہ:احد جنتی پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اُس سے محبت کرتے ہیں۔([viii])  ایک روز نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اعظم اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم احد پہاڑ پر تھے کہ یکایک وہ ہلنے لگا تو رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اثبت احد فانما عليك نبي وصديق وشهيدان یعنی اے احد! ٹھہر جا، تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دوشہید ہی تو ہیں۔([ix])

مزارات شہدائے احد:

3ہجری میں غزوۂ احد پیش آیا، اس تاریخی جنگ میں 70 مسلمان شہید ہوئے، ان کی شہادت کے 46 سال بعد میدان ِ احد سے ایک نہر کی کھدائی کے دوران بعض شہدائے اُحد کی قبریں کھل گئیں۔ اَہلِ مدینہ اور دوسرے لوگوں نے دیکھا کہ شہدائے کرام کے کفن سلامت اور بدن تَرو تازہ ہیں اور انہوں نے اپنے ہاتھ زخموں پر رکھے ہوئے ہیں۔ جب زخم سے ہاتھ اٹھایا جاتا تو تازہ خون نکل کر بہنے لگتا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ پُرسُکون نیند سورہے ہیں۔([x])حضور نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہر سال کے شروع میں شہدائے اُحد کی قبروں (مزارات) پر تشریف لاتے اور یوں سلام فرماتے: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ یعنی سلامتی ہو تم پر تمہارے صبر کا بدلہ تو پچھلا گھر کیا ہی خوب ملا۔([xi])امام المحدثین حضرت شیخ عبدالحق مُحدِّث دِہلَوی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: جو شخص ان شُہَدائے اُحُد سے گزرے اور ان کو سلام کرے یہ قِیامت تک اُس پر سلام بھیجتے رہتے ہیں۔ شُہَدائے اُحُد اورخاص طور پر مزارِ امیر ِحمزہ سے بارہا سلام کے جواب کی آوازسنی گئی ہے۔([xii])

مزار سید الشہدا حضرت حمزہ رضی اللہُ عنہ:

جبلِ احد کے دامن میں شہدائے احد کے مزارات میں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہُ عنہ کا مزار فائضُ الانوار خصوصی اہمیت کا حامل ہے، عاشقانِ رسول بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ یہاں حاضری دیتے ہیں اور خوب برکتیں پاتے ہیں۔ آپ حضور نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حقیقی چچا، رضاعی بھائی، بہت بہادرودلیر تھے، اسداللہ، اسد الرسول، فاعل الخیرات، کاشف الکربات اور سیدالشہدا آپ کے القابات ہیں، آپ بھی غزوہ احد میں شہید ہوئے۔ طبقات ابنِ سعد میں ہے کہمیدان احد میں نہر کی کھدائی کے دوران اتفاق سے بیلچہ آپ کے پاؤں مبارک میں لگ گیا جس کی وجہ سے زخم سے تازہ خون بہہ نکلا۔([xiii])

یہ ہیں شہر ِمحبت مدینہ طیبہ کی کچھ خوشبودار باتیں اور تذکرۂ خیرورنہ اس کے فضائل وکمالات،خصوصیات، خوبیاں، عظمتیں اور رفعتیں بے شمار ہیں، اس شہر کی عظمت ورفعت کے کیا کہنے جس کی شان وشوکت کو خالق ارض وسما اللہ پاک بیان کرے،جس کی فضیلتیں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زبانِ حق ترجمان سے ظاہر ہوں،جس کی محبت میں دنیا بھر کے عاشقان رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تڑپتے ہوں، جہاں پہنچنے پر اہلِ محبت کی آنکھوں سےخوشی کے آنسو اور جدائی پر غم کے آنسو رواں ہوجاتے ہو، جس کے در ودیوار اور ذرہ ذرہ چومنے کو دل چاہتا ہو، جس کی خاک کو آنکھوں کا سرمہ بنایا جاتا ہو، جس کی چاہت والفت میں دل دھڑکتے ہوں، جہاں زندگی بسرکرنے کی تمنااور موت کی آرزو کی جاتی ہیں، الغرض یہ مدینہ پاک خالق ومخلوق کی محبوب ترین جگہوں میں سے ایک ہے اور وجہ صرف یہ ہے کہ یہ اللہ کے حبیب، تاجدارِ کائنات حضرت محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا شہر مبارک ہے، وہاں آپ تشریف فرما ہیں۔عاشقِ رسول امیرِاہلِ سنت مولانا ابوبلال محمد الیاس عطّار قادری مُدَّ ظِلُّہُ العالی کہتے ہیں:

مدینہ اس لیے عطّار جان ودل سے ہے پیارا

کہ رہتے ہیں مِرے آقا مِرے سرور مدینے میں([xiv])

خلاصہ یہ کہ مدینہ منورہ گویا دونوں جہاں کا تاج ہے، بقول شاعر

وہ مدینہ جو” کونین کا تاج “ہے جس کا دِیدار مومن کی معراج ہے

زندگی میں خدا ہر مسلمان کو وہ مدینہ دکھادے تو کیا بات ہے

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*(فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، شعبہ تراجم المدینۃ العلمیہ، کراچی)



([i])مستدرک،4/191، حدیث:4919

([ii])مراٰۃ المناجیح، 2/525

([iii])جستجوئے مدینہ، ص598

([iv])جنتی زیور، ص 390، عاشقان رسول کی 130حکایات، ص262

([v])وفاء الوفا، 3/1411وغیرہ

([vi])شرح ابوداؤد عینی،5/272

([vii])جنتی زیور،ص390

([viii])معجم کبیر،17/18،حدیث:19

([ix])بخاری،2/527،حدیث:3686

([x])سبل الہدیٰ والرشاد،4/252- کتاب المغازی للواقدی،1/267-دلائل النبوۃ للبیہقی،3/291

([xi])مصنف عبدالرزاق،3/381،حدیث:6745

([xii])جذب القلوب، ص 177

([xiii])طبقات ابن سعد،3/7

([xiv])وسائل بخشش،(مرمم)،ص283


Share