میرے وطن

کلاس روم

میرے وطن

*مولانا حیدر علی مدنی

ماہنامہ اگست 2024

میرے وطن یہ عقیدتیں اورپیار تجھ پہ نثار کر دوں

محبتوں کے یہ سلسلےبےشمار تجھ پہ نثار کر دوں

کلاس روم کی سب سے پیاری اور مترنم آواز والے بچے نعمان رضا نے جیسے ہی کلام ختم کیا تو پہلی ہی قطار میں بیٹھے محمد معاویہ نے سر بلال کی طر ف دیکھا تو ایسا محسوس ہوا جیسے سر کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی چمک رہی تھی جسے سر نے جلدی سے ہتھیلی سے پونچھ لیا۔ دراصل اگست شروع ہو چکا جس کے آغاز ہی سے یومِ آزادی منانے کا جوش و ولولہ نظر آنے لگتا ہے، اسی لیے آج سر نے کلاس کی ابتدا میں وطن سے محبت پر مبنی کلام سننے کی فرمائش کر دی تھی جس کے لئے سبھی بچّوں نے بیک زبان نعمان رضا کا نام پیش کیا تھا۔

تو بچو آج کا سبق میں آپ لوگوں کو نہیں پڑھاؤں گا بلکہ آپ لوگ مجھے بتائیں گے کہ آپ لوگ اپنے وطنِ عزیز پاکستان کے لئے کیا کرنا چاہتے ہیں؟ چلیں ہم اس طرف سے شروع کرتے ہیں، سر بلال نے اپنی دہنی طرف والی قطار کی جانب اشارہ کیا۔

آگے بیٹھے اُسید رضا کھڑے ہو کر بولے: سرمیں پولیس کا ایک Honest اور Responsible انسپکٹر بننا چاہتا ہوں اور پبلک کی خدمت کرنا چاہتا ہوں،چور ڈاکو میرے نام سے کانپیں گے۔

آخری بات پر بچّوں کے ساتھ ساتھ سر بھی مسکرا دئیے، کہنے لگے: شاباش بیٹا پولیس تو ایک بہت ہی اہم اور اچھا پروفیشن ہے جس کے ذریعے آپ Directly اپنی سوسائٹی کو سدھارنے میں شریک ہو سکتے ہیں لیکن بیٹا اسید رضا! ایک بات کا خیال رہے کہ اچھا پولیس والا ایک اچھے ڈاکٹر کی طرح ہوتا ہے جس کی کوشش ہوتی ہے کہ بیماری ختم کی جائے نہ کہ بیمار؛ اسی لئے ہماری پولیس کا نعرہ ہے کہ ”نفرت جرم سے ہے، مجرم سے نہیں۔“

سر خاموش ہوئے تو دوسرے نمبر پر بیٹھے حذیفہ نے سر کی اجازت سے بولنا شروع کیا: سر میں تو یونیورسٹی پڑھنے کے لئے باہر چلا جاؤں گا اور ڈاکٹر بن کر وہیں جاب کروں گا، میرے ایک کزن بھی بیرونِ ملک گئے تھے، امی جان بتاتی ہیں اب ان کا اپنا اسپتال، گاڑی اور بنگلا سب کچھ ہے۔

حذیفہ رکے تو سر بلال نے کہا: بیٹا !ایک بہترین ڈاکٹر بن کر آپ اپنے ہم وطنوں کی خدمت بھی تو کرسکتے ہیں۔

سر پاکستان میں رکھا ہی کیا ہے؟ حذیفہ نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ پنکھا بند ہو گیا، مسکراتے ہوئے کہنے لگا: لیجئے سر بجلی چلی گئی، میرے پاپا بتا رہے تھے باہر کے ملکوں میں سڑکوں سے کاریں چارج کرنے کی ٹیکنالوجی پر بھی کام شروع ہو چکا ہے اور ایک ہمارا پاکستان ہے کہ ابھی تک بجلی ہی پوری نہیں ہو رہی۔

حذیفہ نے بات ختم کی تو سر نے کہا: اس سے پہلے کہ میں حذیفہ کی بات کا جواب دوں کیا کسی اور اسٹوڈنٹ کے ذہن میں بھی ملکِ عزیز پاکستان کے متعلق اس طرح کی سوچ ہے؟

سر کے سوال پر کچھ مزید بچوں کی آواز آئی : جی ہاں سر ہم بھی یہی سوچ رہے ہیں۔

سر بلال نے سبھی بچوں کے چہروں پر ایک نظر دوڑائی اور بولنا شروع کیا: دیکھیں بچو! کوئی بھی ملک، وطن، اچھا یا بُرا یا بےکار نہیں ہوتا اس کے شہری اسے اچھا، برا یا مفید بناتے ہیں اگر پاکستان کا ہر شہری ایمان داری، محنت اور لگن کے ساتھ اپنا کام کرے گا تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان بھی ترقی یافتہ ملکوں کی پہلی قطار میں نظر آئے گا۔

سر تھوڑی دیر رُک کر دوبارہ بولے: بچو! کیا آپ کو معلوم ہے برائی کیسے پھیلتی ہے؟ جب اچھے لوگ اچھائی پھیلانا چھوڑ دیتے ہیں، جب ہر کسی کو اپنی پڑی ہو، صرف اچھی نوکری، زیادہ پیسوں کی خاطر اپنی ساری تعلیم و قابلیت کا فائدہ اپنے ملک کے بجائے دوسرے ممالک کو پہنچائیں گے، تب یہی ہوگا ناں کہ ملک باصلاحیت افراد سے خالی ہوجائے گا اور ہمارے وطنِ عزیز میں ہر اہم جگہ نکمے لوگ آتے جائیں گے۔

پیارے بچو! ہمارے بزرگوں نے جس قدر قربانیاں دے کر اور جتنی پریشانیاں جھیل کر یہ وطن حاصل کیا تھا ان کے مقابلے میں ہماری موجودہ پریشانیاں کچھ بھی نہیں ان سب کے باوجود انہوں نے نہ تو کوئی شکایت کی اور نہ ہی وطن چھوڑا بلکہ یہی پیغام دیا:

ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے

اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے

 بات مکمل کرکے سر جانے کےلیے اُٹھنے ہی والے تھے کہ حذیفہ نے کھڑے ہوکر کہا: Thank you سر! آپ نے میری غلط سوچ کو صحیح رُخ دیا، اِن شآءَ اللہ! میں اپنی قابلیت اپنے ملک کے لئے وقف کروں گا۔

فوراً ہی باقی بچوں نے بھی پُرجوش انداز میں اپنے وطن سے محبت کے جذبے کا اظہار کیا اور پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کیے۔

سر نے مسکرا کر گردن ہلاتے ہوئے ان کے جذبوں کو سراہا اور کلاس سے باہر کی طرف چل دئیے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*(مدرس جامعۃ المدینہ، فیضان آن لائن اکیڈمی)


Share