*مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مَدَنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل2023ء
( 01 ) نابالغ بچے کا سرپرست نے فطرہ ادا نہ کیا تو…
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نابالغ بچے کا گزرے ہوئے سالوں کا فطرہ اس کے سرپرست نے ادا نہ کیا ہو تو کیا بالغ ہونے کے بعد ان سالوں کا فطرہ نکالنا اس نابالغ پر واجب ہوگا ؟ راہنمائی فرمائیں۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نابالغ بچہ اگر صاحبِ نصاب ہو اور اس کا سرپرست اس کا فطرہ ادا نہ کرے تو اس صورت میں بالغ ہونے کے بعد ان گزشتہ سالوں کا فطرہ اب اسی بچے پر لازم ہوگا۔ اور اگر نابالغ خود صاحب نصاب نہیں تھا تو بالغ ہونے کے بعد اس پر ایسے صدقہ کی ادائیگی واجب نہیں۔ ( ردالمحتار مع الدرالمختار ، 3 / 365- بہار شریعت ، 1 / 936 )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
( 02 ) زکوٰۃ کے پیسوں سے پُل اور پانی کا کنواں بنوانا کیسا ؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ گلگت بلتستان کی طرف دور دراز دیہات میں ایک جگہ ہے جہاں پہاڑوں پر دو گاؤں کے درمیان ایک ندی بہتی ہے جس میں ویسے ہی گزرنا ممکن نہیں پانی بہت تیز بہتا ہے ، تو اہلِ علاقہ نے سوچا کہ ہم اپنی مدد آپ کے تحت صرف پیدل گزرنے کے لئے لکڑی کا پُل اس کے اوپر بنوا لیتے ہیں ، کیونکہ وہاں شدید حاجت ہے ، دوسرا راستہ اختیار کرنے میں مشکل بھی زیادہ ہے اور ٹائم بھی زیادہ لگتا ہے۔ سوال یہ پوچھنا ہے کہ کیا زکوٰۃ کی رقم سے وہاں پر پُل تعمیر کروا سکتے ہیں ؟ اسی طرح زکوٰۃ کے پیسوں سےغریب آدمیوں کے لئے پانی کا کنواں نکلوا سکتے ہیں ؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر علاوہ زکوٰۃ صاف رقم سے پل کی تعمیر کرنا ممکن ہے تو پھر زکوٰۃ کی رقم استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا فقہائے کرام نے پل وغیرہ مفادِ عامہ کے ان کاموں کے لئے حیلۂ شرعی کے طریقہ پر عمل کرتے ہوئے زکوٰۃ استعمال کرنے کی اجازت اس وقت دی ہے جہاں زکوٰۃ کے علاوہ صاف پیسوں کا بند و بست نہ ہو رہا ہو اور ان کاموں کی حاجت بھی شدید ہو۔
زکوٰۃ میں تملیک ( یعنی فقیرِ شرعی کو مالک بنانا ) شرط ہے اور کنواں کھدوانے اور پل تعمیر کروانے میں تملیک نہیں پائی جاتی اس موقع پرجب زکوٰۃ لگاناجائز ہو تو اس کا طریقہ یہ ہےکہ پہلے زکوٰۃ کی رقم کا فقیرِ شرعی کو مالک بنا دے ، پھر وہ فقیر اپنی مرضی سےکنواں کھدوالے یا پل تعمیر کروالے ، اس سے زکوٰۃ دینے والے اور فقیر دونوں کو ثواب ملے گا۔
( تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق ، 1 / 251-مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر ، 1 / 222-بہار شریعت ، 1 / 890 )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
( 03 ) روزے کی حالت میں دھونی لینا کیسا ؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم نے ایک باشرع عامل سے کچھ تعویذا ت لئے۔ ان میں ایک تعویذ کچھ نقوش پر مشتمل تھا ، آیاتِ قرآنی نہیں تھیں ، جس کے متعلق عامل صاحب نے کہا تھا کہ یہ مغرب سے کچھ دیر پہلے کوئلوں پر رکھ کر اس کے دھوئیں کی دھونی لینی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم روزے کی حالت میں اس تعویذ کو کوئلوں پر جلا کر اس کے دھوئیں کی دھونی لے سکتے ہیں یا نہیں ؟ ( سائلہ : اسلامی بہن )
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
روزے کی حالت میں دھواں قصداً حلق سے داخل کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ لہٰذا روزے میں دھونی نہیں لے سکتے۔
روزہ یاد ہوتے ہوئے ، جان بوجھ کر دھواں گلے میں کھینچنے کے متعلق ردالمحتار مع الدرالمختار میں ہے : ”لو ادخل حلقہ الدخان افطر ( ای بایّ صورة کان الادخال حتی لو تبخر بخورة وآواہ الی نفسہ واشتمہ ذاکرًا لصومہ ، افطر لامکان التحرز عنہ ) “ ترجمہ : اگر کسی نے اپنے حلق میں دھواں داخل کیا ، تو روزہ ٹوٹ جائے گا یعنی دھواں داخل کرنا جس طرح بھی ہو ، یہاں تک کہ اگر خوشبو سلگ رہی تھی اور اس نے اپنے قریب کر کے روزہ یاد ہوتے ہوئے دھوئیں کو کھینچا ، تو روزہ ٹوٹ جائے گا ، کیونکہ اس سے بچنا ممکن تھا۔ ( ردالمحتار مع الدرالمختار ، 3 / 421 )
بہارِ شریعت میں ہے : ”اگر خود قصداً دھواں پہنچایا تو فاسد ہوگیا جبکہ روزہ دار ہونا یاد ہو ، خواہ وہ کسی چیز کا دھواں ہو اور کسی طرح پہنچایا ہو ، یہاں تک کہ اگر کی بتی وغیرہ خوشبو سُلگتی تھی ، اُس نے منہ قریب کر کے دھوئیں کو ناک سے کھینچا روزہ جاتا رہا۔“ ( بہار شریعت ، 1 / 988 )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
( 04 ) وقت سے پہلے افطار کرنے پر روزے کا حکم
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر روزے دار نے غلطی سے ٹائم سے پہلے ہی افطار کرلیا ، جبکہ اسے روزہ دار ہونا یاد بھی تھا۔ تو کیا اس کا وہ روزہ ادا ہوجائے گا ؟ راہنمائی فرمادیں۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں اس شخص کا وہ روزہ ادا نہیں ہوا ، لہٰذا اس شخص پر لازم ہے کہ وہ اس روزے کی قضا کرے اور آئندہ اس معاملے میں احتیاط سے کام لے البتہ اس صورت میں صرف قضا ہے کفارہ نہیں ہوگا۔
( المختصر القدوری ، ص97-بہار شریعت ، 1 / 989-وقار الفتاویٰ ، 2 / 434 ملخصاً و ملتقطاً )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
( 05 ) جس دن سفر پر جانا ہو اس دن کے روزے کا حکم
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی شخص کی عرب شریف کی روانگی ہو اور تقریباً دن بارہ بجے کی اس کی فلائٹ ہو ، تو کیا اس صورت میں اسے اس دن کا روزہ چھوڑنے کی اجازت ہوگی ؟ جبکہ لمبے سفر کے باعث طبیعت پر اثر پڑ نےاور قے ہونے کا بھی اندیشہ ہو ؟ راہنمائی فرمائیں۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر کوئی شخص صبح صادق کے وقت مسافرِ شرعی نہ ہو بلکہ اسے دن میں سفر کرنا ہو تو یہ سفر آج کے دن کا روزہ چھوڑنے کے لیے عذر نہیں بنے گا ، اس دن کا روزہ رکھنا فرض ہوگا۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اس سفر کی وجہ سے ، یونہی بیان کردہ خدشات کی بنا پر ، چھوٹی موٹی طبیعت کی خرابی کے سبب اس دن کا روزہ چھوڑنے کی ہرگز اجازت نہیں جب تک کہ مرض کی وہ کیفیت ثابت نہ ہوجائے جس کو شریعت نے روزہ توڑنے یا نہ رکھنے کی رخصت قرار دیا ہے۔
( البحر الرائق ، 2 / 492-الاختیار لتعلیل المختار ، 1 / 173-بہار شریعت ، 1 / 1003-فتاویٰ نوریہ ، 2 / 201 ، 202 )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* محققِ اہلِ سنّت ، دارُالافتاء اہلِ سنّت نورُالعرفان ، کھارادر کراچی
Comments