یکسوئی (Concentration)

کتابِ زندگی

یکسوئی ( Concentration )

*مولانا ابورجب محمد آصف عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل 2023

حضرت ابو بکر شبلی رحمۃُ اللہ علیہ حضرت ابو الحسین نوری رحمۃُ اللہ علیہ کے پاس آئے تو انہیں بڑی دل جمعی  ( کامل توجہ ، یکسوئی )  اور خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھا پایا کہ ان کے جسم کا کوئی حصہ حرکت نہیں کررہا تھا۔حضرت ابوبکر شبلی رحمۃُ اللہ علیہ نے پوچھا:آپ نے ایسا سُکوت اورمُراقبہ  ( گردن جُھکا کر مکمل توجہ سے غور و فکر کرنا۔ Meditation )  کہاں سے سیکھا ؟ فرمایا: ہمارے پاس ایک بلی تھی اس سے سیکھا ہے ، جب وہ شکار کا ارادہ کرتی تو چوہے کے بِل ( Rathole )  کے پاس اس طرح گھات  ( Ambush ) لگا کر بیٹھتی کہ اس کا ایک بال بھی حرکت نہ کرتا۔  [1]

اس واقعےسے ایک بات تو یہ پتا چلی کہ انسان سیکھنا چاہے تو جانوروں اور پرندوں سے بھی سیکھ سکتا ہے جیسے شیر سے بہادری ، چیتے سے پُھرتی ، اونٹ سے استقامت و برداشت ، کتے سے وفاداری ، مُرغی سے توکل وغیرہ۔ اور دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ کسی بھی مقصد میں اچھی کامیابی کے لئے یکسوئی ، دل جمعی اور بھرپور توجہ کا ہونا بہت ضروری ہے چاہے وہ مقصد دنیاوی ہو یا اُخروی ! مثلاً

 * جس کتاب کا مطالعہ ( Study )  جتنی یکسُوئی سے کیا جائے اتنا ہی اسے سمجھنا اور یاد رکھنا آسان ہوگا اور کتاب بھی جلدی مکمل ہوجائے گی۔

 * قراٰنِ پاک حفظ کرنے والا ہر طرف سے بے نیاز ہو کر پوری توجہ سے سبق یاد کرے تو اچھا اور مضبوط حافظ بنے گا۔

 * تلاوتِ قراٰن کرتے وقت توجہ صرف اور صرف تلاوت پر ہوگی تو کلامِ الٰہی پڑھنے میں رُوحانی سُرور اور لطف بھی آئے گا اور اگر ترجمہ و تفسیر بھی ساتھ پڑھ رہے ہوں گے تو پیغامِ قراٰن زیادہ سمجھ میں آئے گا۔ حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: جب تک تمہارے دل قراٰنِ پاک کی تلاوت پر جمے رہیں تب تک پڑھتے رہو ورنہ چھوڑ کر کھڑے ہوجاؤ۔[2]اسی طرح حمد و نعت سننے کا معاملہ ہے۔

 * کلاس میں کوئی دینی سبق کو 100فیصد سمجھ جاتا ہے تو کوئی 80فیصد اور کسی کو 60فیصد سبق سمجھ میں آتا ہے حالانکہ سب ایک ہی وقت میں ایک ہی ٹیچر سے پڑھ رہے ہوتے ہیں ، اس فرق کی جہاں اور کئی وجوہات ہیں وہیں یکسوئی میں کمی بیشی بھی اہم سبب ہے ، جو طالبِ علم دورانِ سبق نہ کسی سے بے کار بات کرتا ہے ، نہ موبائل میں مصروف ہوتا ہے ، نہ کلاس روم کے باہر آنے جانے والوں کو دیکھتا ہے ، نہ اس کا دماغ کلاس روم سے باہر بازار یا گھر پہنچا ہوتا ہے بلکہ اس کی توجہ صرف اور صرف ٹیچر کی طرف ہوتی ہے اس کا سبق بھی اتنا ہی مضبوط ہوتا ہے۔ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں جب صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان سیکھنے کے لئے حاضر ہوتے تو دیکھنے والوں نے بتایا کہ وہ اتنی توجہ سے بغیر کسی حرکت کے بیٹھے ہوتے کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں جو ہلنے سے اُڑ جائیں گے۔ اس طرح دینی بیان سننے ، اسلامی احکامات سیکھنے کا معاملہ ہے۔

 * نماز میں مخلوق سے منہ موڑ کر صرف اور صرف خالق کائنات کی یکسوئی سے عبادت خشوع و خضوع کا مقصد ہے ، اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیں نصیحت فرمائی: تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا کہ تُو اسے دیکھ رہا ہے اگر تُو اسے نہیں دیکھ سکتا تو وہ تو تجھے دیکھ ہی رہا ہے۔[3]امام غزالی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں: مسجدسے مقصود عبادتِ الٰہی میں یکسوئی اور خُشُوع و خُضُوع ہے۔[4]

 * جس سے کچھ مانگا جائے اپنی ساری توجہ اس کی طرف رکھنا کامیابی کے لئے ضروری ہے ، چنانچہ دعا کے آداب میں اہم ترین ادب یہ بھی ہے کہ ہر وہ کام چھوڑ دیا جائے جو دعا مانگنے والے کی توجہ اپنے سوال اور جواب عطا فرمانے والے ربِّ کائنات سے ہٹائے ، دعا میں جان بوجھ کر ہم قافیہ و ہم وزن جملے استعمال کرنے سے غالباً اسی لئے روکا گیا ہے کہ اس سے یکسوئی ختم ہوتی ہے اور رِقَّت جاتی رہتی ہے۔

 * اسی طرح اَوراد وَ وظائف میں یکسوئی زیادہ بہتر ہے۔

 * لکھاری  ( Writer ) جتنی یکسوئی کے ساتھ کام کرے گا اتنی اس کی تحریر جاندار و شاندار ہوگی۔

 * یونہی دنیاوی کاموں میں سے مختلف جاب ، کاروبار ، ڈرائیونگ ، واٹس اپ وغیرہ بھیجنے  ( یعنی جس کو بھیجنا ہے اسی کو بھیجنے کے لئے ) ، مریض کا آپریشن کرنے ، فیکٹری کا نظام چلانے اور سیکورٹی وغیرہ میں یکسوئی ہونا ضروری ہے۔

اسی طرح غور و فکر کر کے آپ بھی کئی مثالیں جمع کرسکتے ہیں۔ بہرحال جب کام اچھا ہوگا تو اس کا بدلہ  ( Reward )  بھی اچھا ملے گا۔

یکسوئی نہ ہونے کا نقصان: اگر کوئی بھی کام یکسوئی کے بجائے بے توجہی سے کیا جائے تو اس میں کامیابی کا امکان بھی کم ہوجائے گا اور معیار  ( Quality )  بھی گرسکتا ہے ، بلکہ سیکورٹی ، میڈیکل سرجری ، ڈرائیونگ ، خطرناک اور جان لیوا کیمیکل سنبھالنے ، الیکٹریکل یا گیس وائرنگ جیسے کاموں میں کوتاہی سے کسی کی جان بھی جاسکتی ہے۔

یکسوئی کیسے حاصل کی جائے ؟ اس کے لئے ہر اس چیز سے پرہیز کیا جائے جو یکسوئی میں رکاوٹ بنے جیسےبھوک ، پیاس ، ٹینشن ، فضول گفتگو ، بلاضرورت ادھر ادھر دیکھنا ، اپنے کام چھوڑ کر دوسروں کے کام میں مداخلت کرنا ، ایک کام کرنے کے وقت میں دوسرے کام میں لگ جانا ، الگ الگ نوعیت کے کام ایک ساتھ کرنا ، بار بار موبائل پر میسجز ، واٹس اپ چیک کرنا ، بار بار فیس بک یا نیوز کھول لینا ، دفتر میں بیٹھ کر فون پر گھر کے مسائل حل کرنا ، ترجیحات کے بغیر کام کرنا کہ جو کام زیادہ تھکانے والا ہے اسے آخر میں کرنے کے بجائے شروع میں کرنا ، ایک تھکا دینے والے کام کے دوران دوسرا تھکا دینے والا کام کرنے میں لگ جانا کیونکہ جب یہ پہلے کام کی طرف واپس آئے گا تو پہلے سے زیادہ تھک چکا ہوگا ، وقفہ کئے بغیر مسلسل کام کئے جانا ، کام کے دوران غیرضروری ملاقاتیں کرنا ، غیر ضروری مصروفیات نہ چھوڑنا وغیرہ۔

بعض لوگ اپنے دفتر کے باہر یا میز پر Don’t Disturb کی تختی لگا دیتے ہیں یہ بھی اچھا طریقہ ہے لیکن یہ ہدایت دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنے دل و دماغ کے لئے بھی ہو۔ ان باتوں کو آزما کر دیکھئے ، آپ کے کام کا معیار گھنٹوں کے حساب سے بہتر ہوگا۔اِنْ شآءَ اللہ !

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*اسلامک اسکالر ، رکنِ مجلس المدینۃ العلمیہ   اسلامک ریسرچ سینٹر  ، کراچی



[1] احیاء العلوم ، 5/131

[2] سنن کبریٰ للنسائی ، 5/33 ، رقم: 8098

[3] مسلم ، ص33 حدیث: 93

[4] احیاء العلوم ، 3/499


Share