نعت خواں صحابۂ کرام

نعت خواں صحابہ كرام  علیہمُ الرّضوان

*محمد مصطفی ٰ انیس  عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل 2023

ربِّ کریم کے بعد کائنات میں خاتم النّبِیّٖن حضرت  محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وہ  عظیم ہستی ہیں جن کی سب سے زیادہ مدح وثناء کی گئی ہے۔ قراٰنِ مجید میں   کہیں آپ کو ” مزمل “ و ” مدثر  “ سے تو   کہیں ، ” طٰہ  “ و ” یٰسین “ سے خطاب فرمایا گیا۔ انبیائے سابقین نے اپنے اپنے زمانے میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعریف و توصیف بیان کی اور پھر یہ سلسلہ ” وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ ( ۴ )  “ (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)   کا مژدہ بنتے ہوئے صحابۂ کرام ، تابعین ، علمائے اسلام  اور دیگر صالحین  سے ہوتے ہوئے ہم تک پہنچا اور اِن شآءَ اللہ تا قیام  قیامت  بلکہ جنّت میں بھی جاری رہے گا۔

صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  نے اپنے محبوب   سے  جو عقیدت و محبت   کا والہانہ اظہار کیا  وہ انسانی تاریخ میں  روشن مثال ہے۔ بلکہ کئی ایسے صحابۂ کرام ہیں جو اسلامی تاریخ میں ” شعرائے بارگاہِ رسالت “ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

  ان میں مشہور حضرت حَسّان بن ثابِت  ، عبد اللہ  بن رَواحہ ، کعب بن زُہَیر ، کعب بن مالک   رضی اللہ عنہم وغیرہ کا نام قابلِ ذکرہے۔

حَسَّان بن ثابِت

 مشرکین نے جب  حضور نبیِّ رحمت  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہِجْو کی تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے صحابۂ کرام سے فرمایا : ” قریش کی ہجو کرو ، کیوں کہ ان   پر  ہجو تیروں کی بوچھاڑ سے زیادہ شاق گزرتی ہے ،  پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت ابنِ رواحہ کی طرف پیغام بھیجا کہ کفارِ قریش کی ہجو کرو ، انہوں نے کفار قریش کی ہجو کی ، وہ آپ کو پسند نہیں آئی ، پھر آپ نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا ، پھر حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا جب حضرت حسان آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں آئے تو انہوں نے عرض کیا : اب وقت آگیا ہے ، آپ نے اُس شیر کی طرف پیغام بھیجا ہے جو اپنی دم سے مارتا ہے پھر اپنی زبان نکال کر ہلانے لگے۔ پھر عرض کیا : یا رسول اللہ ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے ! میں اپنی زبان سے انہیں اس طرح چیر پھاڑ کر رکھ دوں گا جس طرح چمڑے کو پھاڑتے ہیں۔ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جلدی نہ کرو ، یقینا ابو بکر قریش کے نسب کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں اور ان میں میرا نسب بھی ہے۔  ( تم ان کے پاس جاؤ )  تاکہ ابو بکر میرا نسب ان سے الگ کردیں۔ حضرت حسان رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے ، پھر واپس لوٹے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! ابو بکر نے میرے لئے آپ کا نسب الگ کر دیاہے۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ! میں آپ کو ان میں سے اس طرح نکال لوں گا جس طرح گندھے ہوئے آٹے سے بال نکال لیا جاتا ہے۔‘‘[1]

آپ رضی اللہ عنہ  کو نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بڑی محبت وعقیدت تھی۔ حضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی ان  پر خصوصی کرم فرماتے تھے یہاں تک کہ  رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسجدِ نبوی میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لئے منبر رکھواتے تھے جس پر وہ کھڑے ہو کر رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طرف سے  ( مشرکین کے مقابلہ میں )  فخر یا دفاع کیا کرتے تھے۔ رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے : بے شک اللہ پاک روحُ القدس کے ذریعے حسان کی مدد فرماتا رہے گا جب تک وہ رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طرف سے فخر یا دفاع کرتا رہے گا۔  [2]

 رسول اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد  حضرت حسان رضی اللہ عنہ  نے آپ کی شان میں کئی قصیدے کہے ، جن میں اپنے غم و جذبے اور مخلصانہ محبت کا اظہار کیا ۔ اس میں ایک قصیدہ ایسا بھی ہے جس میں انہوں نے منبرِرسول ، مصلائے رسول ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی وفات پر زمین و آسمان کے رونے ، اللہ پاک کی رحمت  اور  آخرت میں رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔[3]

کعب بن مالک

عُقْبَہ ثانِیَہ میں 70 آدمیوں کے ساتھ اسلام لانے والے انصاری صحابی حضرت کعب بن مالک ( سال وفات 40ھ )    كو بھی نعت خوانِ بارگاہِ رسالت   ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ایک مرتبہ نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض گزار ہوئے کہ : شعر کہنا کیساہے ؟ فرمایا : کوئی مضائقہ نہیں ، مسلمان تلوار اور زبان دونوں سے جہاد کرتا ہے ۔

ان کی شاعری کا موضوع کفار کو لڑائی سے ڈرانا اور  اسلام کا کفار کے دلوں میں سکہ جمانا تھا۔ حضرت کعب کے شعر کی تاثیر کا اندازہ اس واقعے سے بھی  لگایا جاسکتاہے کہ صرف دو بیت کہے اور پورا قبیلہ دوس  مسلمان ہوگیا ۔[4]

عبد اللہ بن رَواحَہ

شاعرِ رسول حضرت عبدُ اللہ  بن رَواحَہ رضی اللہ عنہ  ( سال شہادت 8ھ )   لیلۃُ العُقْبَہ میں مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ ان کے اشعار کا موضوع کفر پر مشرکین کو عار دلانا  تھا۔ غزوۂ خَنْدَق میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کے رَجَز کے اشعار پڑھتے تھے۔

عمرۃُ القَضا میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مکہ تشریف لے گئے تو  حضرت عبد اللہ  بن رواحہ رضی اللہ عنہ اونٹ کی مُہار پکڑے ہوئے اور اشعار  پڑھ رہے تھے جس پر  حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے کہا ! خدا کے حرم اور رسول اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے روبرو شعر پڑھتے ہو ؟ رسولِ كريم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اے عمر !  اسے چھوڑ دو ! اس کا کلام کفار پر تیر ونشتر سے بھی تیز ہے۔[5]

حضرت عبد اللہ  بن رَواحَہ نے حضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حسنِ مبارک  کو اپنے شعر میں کچھ یوں بیان کیا :

لَوْ لَمْ تَكُنْ فِيهِ آيَاتٌ مُبَيَّنَةٌ

كَانَتْ بَدِيهَتُهُ تُنْبِئُكَ بِالْخَبَرِ

 ترجمہ : اگر آپ میں کھلی ہوئی نشانیاں نہ بھی ہوں ، جب بھی آپ کی صورت خبر  ( رسالت )  دینے کے لئے کافی تھی۔[6]

کعب بن زُہَیر

حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ثناخوانی کا شرف پانے والے صحابہ میں سے ایک خوش نصیب کعب بن زُہیر رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے ان کے بارے میں قتل کا آرڈر جاری ہوچکا تھا ، فرمایا گیا تھا کہ جو بھی انہیں دیکھے قتل کردے ، ان کے بھائی حضرت بُجَیر بن زُہَیر جو کہ اسلام لاچکے تھے انہوں نے آپ کو خط لکھا اور بتایا کہ اگر تم اسلام لے آؤ تو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مُعاف کردیں گے ، چنانچہ یہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کی توبہ کو بھی قبول فرمایا ، بارگاہِ رسالت سے امان پاکر انہوں نے ایک قصیدہ شانِ سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں پیش کیا ، جسے قصیدہ ” بَانَتْ سُعاد “ کہا جاتاہے ، اسے ” قصیدۂ بُردہ “ بھی کہتے ہیں کیونکہ رسولِ كريم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قصیدہ سُن کر انہیں اپنی مبارک چادر عطا فرمائی۔[7]

یہ چادر بعد میں حضرت سیّدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کعب بن زہیر کے بیٹے سے خرید لی  تھی۔[8]

اس قصیدے کے دو اشعار ملاحظہ کیجئے :

اُنْبِئْتُ اَنَّ رَسُوْلَ اللہ ِ اَوْعَدَنِیْ

وَالْعَفْوُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہ ِ مَامُوْل

اِنِّیْ اَتَیْتُ رَسُوْلَ اللہ ِ مُعْتَذِراً

وَالْعُذْرُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہ ِ مَقْبُوْل

مجھے خبر پہنچی کہ رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میرے لئے سزا کا حکم فرمایا ہے اور رسول کے ہاں معافی کی امید کی جاتی ہے اور میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حضور معذرت کرتا حاضر ہوا اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں عذر قبول کیا جاتا ہے۔[9]

کُلَیب بن اَسد اَلٰحَضْرَمِی

حضرموت کی ایک خوش نصیب خاتون نے اپنے ہاتھوں سے ایک چادر بنائی اور اپنے بیٹے سے فرمایا کہ  حضورِ نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بارگاہ میں جاؤ اور انہیں یہ چادر تحفہ پیش کرو ، چنانچہ ان کا بیٹا حضرت کلیب بن اسد ایک وفد کے ساتھ بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوا ،  اسلام قبول کیا اور ماں کا بھیجا ہوا تحفہ  پیش کرنے کے بعد  ایک نعت  کچھ یوں  پڑھی :

أَنْتَ النَّبِيُّ الَّذِي كُنَّا نُخْبَرُهُ

وَبَشَّرَتْنَا بِكَ التَّوْرَاةُ وَالرُّسُلُ

آپ ہی وہ نبیِّ مکرم ہیں کہ جن کی خبر ہمیں دی گئی اور جن کے بارے میں ہمیں تورات اور سابقہ رسولوں نے بشارت دی۔

آقائے دو جہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے    اپنا مبارک  ہاتھ  حضرت کلیب کے چہرے پر پھیرا۔  حضرت کُلَیب کی اولاد اس  پر فخر کرتی تھی۔[10]

ثناخوان  بچیاں

 نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےجب اللہ کے حکم سے مدینہ منورہ ہجرت   کی  تو اہلِ مدینہ آپ کے استقبال کے لئے اپنے گھروں سے باہر آگئےاس وقت  مدینۂ پاک کی چھوٹی چھوٹی بچیوں نے آپ کے استقبال میں یوں نذرانۂ نعت پیش کیا :

طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا                                                         مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعِ

وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا                                                     مَا دَعَا لِلہِ دَاع

ہم پر چودہویں کا چاند ثَنِیَّات الْوَدَاعِ  ( یعنی وداع کی گھاٹیوں )  کی طرف سے طلوع ہوا۔ ہم  پر شکر واجب ہے کہ آپ نے  ہمیں اللہ کی طرف دعوتِ حق دی ۔[11]

ان کے علاوہ بھی کثیر صحابۂ کرام اور صحابیات ہیں  جنہوں نے  نظم کی صورت میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ثناخوانی کا شرف پایا۔ اللہ  کریم کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بےحساب مغفرت ہو۔ اٰمین

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، شعبہ دعوتِ اسلامی کے شب و روز



[1] مسلم ، ص 1038 ، حدیث : 6395

[2] ترمذی ، 4 / 385 ، حدیث : 2855

[3] سيرت ابن ہشام ، ص 583

[4] اسد الغابہ4 / 514 

[5] ترمذی ، 4 / 385 ، حدیث : 2856

[6] الاصابہ 4 / 75

[7] امتاع الاسماع ، 2/88

[8] معجم الصحابہ لابن القانع ، 2 / 381

[9] المجموعۃ النبہانیۃ فی المدائح النبویۃ ، 3/6

[10] طبقات ابن سعد ، 1/263

[11] البدایۃ و النہایہ ، 2 / 583


Share