خریدے ہوئے مال کی واپسی

تاجروں کے لئے

خریدے ہوئے مال کی واپسی

*مولانا عبدالرحمٰن عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل 2023

جب دو شخص آپس میں کسی چیزکی خرید و فروخت کریں تو سودا ہوجانے کے بعد کچھ دیر وہاں ٹھہرے رہیں تاکہ خریدار چیز کو اچھی طرح دیکھ بھال لے اور تاجر پیسے گن لے ، اس کا اصلی اور نقلی ہونا پرکھ لے۔ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ بیچنے والا چیز بیچتے ہی فوراً وہاں سے رفو چکر ہو جائے اس خوف سے کہ سامنے والا عیب پر مطلع ہو کر کہیں سودا توڑ نہ دے ، اس عمل میں اگرچہ دھوکا نہیں ہے مگر یہ دھوکے کی طرح ضرور ہے۔ حدیث شریف میں ہے : تاجر اور خریدار کو اختیار حاصل ہے جب تک کہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں ، سوائے یہ کہ سودےہی میں اختیار کی شرط ہواور  ( دونوں میں سے ) کسی کے لئے یہ مناسب نہیں کہ اقالہ کے ڈر سے اپنے ساتھی سے الگ ہوجائے۔

 ( ترمذی ، 3 / 25 ، حدیث1251 )

اقالہ کسے کہتے ہیں ؟ کبھی ایسی صورت حال بھی پیش آتی ہے کہ سودا ہوجانے کے بعد خریدارکو اس سودے پر ندامت ہوتی ہے کیونکہ بعض اوقات وہ جلد بازی میں سودا کرلیتا ہے حالانکہ اس کا دل پوری طرح مطمئن نہیں ہوا ہوتایا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جو چیز اس نے لی ہوتی ہے وہی چیز اس کے گھر کا کوئی دوسرا فرد بھی لے آتا ہے یااس کے علاوہ کوئی اور وجہ ہوتی ہےجس کی وجہ سے وہ چیز واپس کرنا چاہتا ہے۔ یونہی کبھی فروخت کرنے والے کو دکھ ہوتا ہے کہ میں نے اتنی کم قیمت پریہ چیز کیوں بیچ دی اور اسے واپس لینا چاہتا ہے تو ایسی صورت میں بیچنے اور خریدنے والے دونوں کو اختیار ہے کہ آپس کی رضامندی سے سودا ختم کردیں ، بیچنے والا بکا ہوا سامان واپس لے لےاور اتنی ہی رقم واپس دےدے یا خریدار خریدا ہوا سامان واپس کردے اور وہی رقم واپس لے لے۔ اس عمل کو شریعت کی اصطلاح میں اقالہ کہتے ہیں۔

اقالہ کی فضیلت اقالہ کرنا اگرچہ دونوں پر واجب نہیں ہے لیکن مستحب ضرور ہے ، اس لئے دوسرے فریق کو چاہئے کہ سامنے والے کی بات منظور کرتے ہوئے اس پر مہربانی کرے ، حدیثِ پاک میں اس کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : جس نے  ( اپنے سودے پر )  نادم شخص سے اقالہ کیا تو اللہ پاک قیامت کے دن اس کی لغزشوں کو معاف فرمائے گا۔ ( سننِ کبریٰ للبیہقی ، 6 / 44 ، حدیث : 11129 )  امام غزالی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اقالہ وہی شخص کرنا چاہے گا جو اپنی خرید و فروخت پہ نادِم ہو اور اسے اس سےنقصان ہو اور کسی شخص کویہ پسند نہیں کرنا چاہئے کہ وہ اپنے بھائی کو نقصان پہنچانے کا سبب بنے۔ ( احیاء العلوم ، 2 / 105 )  * دکانداروں کے پاس جب کوئی شخص چیز واپس کرنے آتا ہے تو بعض دکاندار تو چیز لے کر قیمت واپس کردیتے ہیں اور کچھ قیمت تو واپس نہیں کرتے لیکن اس کے بدلے میں خریدار کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ دوسری کوئی چیز لے لے ، قیمت واپس نہیں ملے گی۔ تو یہ صورت اقالہ کی نہ ہوئی بلکہ اب یہ بیع مقایضہ ہوکر ایک نیا سودا ہوگیا۔بیع مقایضہ سے مراد وہ خرید و فروخت ہے جس میں دونوں طرف سامان ہوتا ہے ، نقدی نہیں ہوتی ، سامان دے کر سامان کو خریدا جاتا ہے * بعض اوقات بیچنے والا چیز کچھ مہنگی بیچ دیتا ہے اور خریدار اقالہ کرنا چاہتا ہے تو اقالہ کردینا چاہئے اور اگر بیچنے والے نے بہت زیادہ دھوکا دیا ہے تو اب اقالہ کی ضرورت نہیں تنہا خریدار ہی سودا کینسل کرسکتا ہے اگرچہ تاجر اس پر راضی نہ ہو۔ ( ماخوذ از بہارشریعت ، 2 / 737 )  اقالہ کی شرائط اور اس کے متعلق مزید جاننے کے لئے بہار شریعت جلد 2 ، ص 734تا738 کا مطالعہ کیجئے۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ دورانِ تجارت بھی ہمیں مسلمانوں کے ساتھ سہولت اور نرمی کا معاملہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ عربی ٹرانسلیشن ڈیپارٹمنٹ ، کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code