مقصدِ روزہ

مقصدِ روزہ

*مولانا سیّد عمران اختر عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل2023

 روزہ مسلمانوں پر فرض ہے ، بلاعذر اس کا ترک کبیرہ گناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے جبکہ اس عظیم عبادت کی بجاآوری پر جنّت کی بشارت ہے۔ روزہ ایک خاص مقصد کے تحت رکھا جاتا ہے اگر ہماری اس مقصد پر نظر نہ ہو تو ہم اس عبادت کا پورا فائدہ اور ذوق نہیں پاسکتے۔ اگر ہمیں روزے کے مقصد سے آگاہی نہ ہو یا آگاہی تو ہو لیکن ہم اس مقصد کے حصول کی کوشش نہ کریں تو ہمیں ڈر جانا چاہئے کہ حدیثِ پاک میں فرمایا گیا ہے : بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ اُن کو ان کے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔  [1]

آئیے روزے کا مقصد ، اس مقصد کی اہمیت اور اس کے حصول میں حائل رکاوٹوں اور ان کے حل پر غور کرتے ہیں :

روزے کا مقصداللہ پاک کا فرمان ہے : ( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ ( ۱۸۳ )   )  ترجمۂ کنز العرفان : اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔[2] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اس آیت میں واضح طور پر روزے کا مقصد تقوٰی حاصل ہونا بتایا گیا ہے۔ تقوٰی کا مطلب یہ بھی ہے کہ ممنوعہ چیزوں سے باز رہ کر خود کو گناہوں سے روک لیا جائے۔[3]

چونکہ تقوٰی کی بنیاد ہی باز رہنے اور رک جانے پر ہے کہ کھانا پینا دستیاب ہونے اور اس کی خواہش ہونے کے باوجود بھی روزہ دار جلوت و خلوت میں اپنی خواہش پر قابو پا جاتا ہے اور صرف حکمِ الٰہی کی تابع داری میں خود کو کھانے پینے سے روک لیتا ہے اور چونکہ خود پر قابو رکھنے اور نفس کو اللہ کے حکم کا تابع رکھنے کی یہ صلاحیت روزے کے ذریعے بھرپور انداز میں حاصل ہوتی ہے اور اس سے گناہوں کو چھوڑا اور خواہشات کو روکا جاسکتا ہے اس لئے روزے کا انجام و مقصد تقوے کو کہا گیا ہے بلکہ ایک حدیثِ پاک میں تو نکاح کو بدنگاہی و پریشان نظری سے بچنے کا اورشرمگاہ کی حفاظت کا ذریعہ قرار دے کر فرمایا گیا کہ جس میں نکاح کی استطاعت نہیں وہ روزے رکھے کہ روزہ خواہشات ختم کردیتا ہے۔[4]

قراٰنِ پاک میں کئی مقامات پر تقوٰی کی تاکید کی گئی ہے۔ چنانچہ کہیں تقوٰی اختیار کرنے کی وصیت و تاکید بیان فرمائی[5]تو کہیں اسے استطاعت کے مطابق اپنانے کا حکم دیا ،[6]  کہیں تقوٰی و پرہیزگاری کو سب سے بہتر زادِ راہ قرار دیا  [7]تو کہیں سب سے بہتر لباس ،   [8]کہیں اہلِ تقوٰی کو اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ اللہ ان کے ساتھ ہے[9]تو کہیں ان کیلئے جنت میں داخلے کی خوشخبری بیان ہوئی[10] اور ایک مقام پر آسمان و زمین کی برکتوں کو تقوٰی اختیار کرنے پر موقوف فرمایا۔[11]ان کے علاوہ بھی متعدد آیات اورقراٰنی مَفاہیم ہیں جن سے اللہ پاک کے نزدیک اہلِ ایمان کے لئے تقوٰی کا انتہائی اہم ہونا پتا چلتا ہے لہٰذا روزے سے تقوٰی جیسی اہم چیز کا حاصل ہونا بھی روزے کی اہمیت کا پتا دیتا ہے۔

مقصدِ روزہ حاصل نہ ہونے کی وجوہات روزہ رکھ کر بھی مقصدِ روزہ یعنی تقوٰی حاصل نہ ہونے کی وجوہات یہ ہو سکتی ہیں :  *  مقصدِ روزہ ہی معلوم نہ ہونا  *  سحری سے افطاری تک صرف بھوکا پیاسا رہنے کو ہی روزے کا مقصد سمجھ بیٹھنا  *  مقصدِ روزہ معلوم ہونے کے باوجود اسے اہم نہ سمجھنا  *  آدابِ روزہ میں کوتاہیاں کرتے رہنا حالانکہ روزے کے معاملے میں اس بڑی غلط فہمی کو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دور کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : روزہ اس کا نام نہیں کہ کھانے اور پینے سے باز رہنا ہو ، روزہ تویہ ہے کہ لغو و بیہودہ باتوں سے بچا جائے۔[12]

لہٰذا تقوٰی کو اہم جاننے اور روزے کے ذریعے اسے پانے کی شدید جستجو و تمنا کے باوجود اگر روزے کے آداب کا خیال نہ رکھا جائے تو روزے کی نورانیت و تقوٰی نہیں ملتا جیساکہ پیارے آقا ، مکی مدنی مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : روزہ سپر یعنی ڈھال ہے ، جب تک اسے پھاڑا نہ ہو۔ عرض کی گئی ، کس چیز سے پھاڑے گا ؟ ارشاد فرمایا : جھوٹ یا غیبت سے۔  [13]

حل و علاج روزہ رکھ کر بھی جسے تقوٰی نہ مل پاتا ہو اس کے لئے علاج یہ ہے کہ  *  حصولِ تقوٰی میں رکاوٹ بننے والے ان تمام اسباب کو ختم کرے جو اوپر بیان کئے گئے ہیں  *  روزے کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کی جائے ، امامُ المتکلمین مولانا نقی علی خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حق اس کا یہ ہے کہ دل کو اندیشۂ غیر سے خالی کرے اور یادِ الٰہی میں دن کاٹے[14]  *  پیٹ کے روزے کے ساتھ ساتھ پورے جسم کے ظاہر و باطن کا بھی روزہ رکھا جائے ، امیرِ اہل سنت حضرت علامہ مولانا الیاس عطّاؔر قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ فرماتے ہیں : حقیقی معنوں میں روزے کی برکتیں تواُسی وَقت نصیب ہوں گی ، جب ہم تمام اَعضا کا بھی روزہ رکھیں گے۔[15]

اہلِ علم حضرات نے قراٰن و حدیث کے کثیر مطالعے اور وسیع علمی تجربات کی روشنی میں روزے کی جو حکمتیں بیان فرمائی ہیں ان کو مدِّ نظر رکھنا بھی روزے کے مقصد کو پانے میں کامیابی کاضامن ہوگا۔

روزے کی حکمتیں  *  پیٹ بھرنے سے نفس قوی ہوتا ہے اور خالی رہنے سے روح میں قوت آتی ہے لہٰذا جن دنوں روزہ نہیں ہوتا تو نفس کی غذا کا جبکہ روزے والے دنوں میں روح کی غذا کا بندوبست ہوجاتا ہے  *  روزہ پیٹ کی تمام بیماریوں کا علاج ہے ، اگر کوئی ہر ماہ میں تین دن روزے رکھ لیا کرے تو وہ شکمی ( یعنی پیٹ کے )  امراض سے محفوظ رہے گا  *  روزے سے فقر اور فاقہ کی قدر معلوم ہوتی ہے  *  روزے میں اپنے بندہ ہونے اور رب کے مالک ہونے کا اظہار ہوتا ہے کہ ہم اپنی کسی چیز کے مستقل مالک نہیں ، گھر میں سب کچھ ہے مگر رب نے روک دیا تو کچھ استعمال نہیں کرسکتے  *  روزے سے بھوک برداشت کرنے کی عادت رہتی ہے کہ اگر کبھی فاقہ درپیش آجائے تو روزے دار صبر کرسکے گا  *  روزے میں بھوک برداشت کرنی ہوتی ہے اس سے روح گناہوں سے باز رہتی ہے[16]*  روزے سے ریاضت اور نفس کُشی کی مشق ہوتی ہے  *  شہوت اور غصہ جوکہ تمام گناہوں کی اصل اور جڑ ہیں روزے سے ان کی قوت کمزور ہوجاتی ہے  *  اس سے شیطان کے راستے تنگ ہوتے ہیں  *  دل کی پاکیزگی ، رِقّتِ قلبی ، عبادت کی لذت ، انکسار ، دوزخ کی یاد ، شہوت کا خاتمہ اور غیر ضروری نیند سے نجات ملتی ہے۔[17]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



[1] ابنِ ماجہ ، 2 / 320 ، حدیث : 1690

[2] پ 2 ، البقرۃ : 183

[3] مفردات امام راغب ، ص531

[4] بخاری ، 3 / 422 ، حدیث : 5066

[5] پ5 ، النسآء : 131

[6] پ28 ، التغابن : 164681

[7] پ2 ، البقرۃ : 197

[8] پ8 ، الاعراف : 26

[9] پ14 ، النحل : 128

[10] پ24 ، الزمر : 73

[11] پ9 ، الاعراف : 96

[12] مستدرک للحاکم ، 2 / 67 ، حدیث : 1611

[13] معجم اوسط ، 3 / 264 ، حدیث : 4536

[14] جواہر البیان ، ص 91

[15] فیضانِ رمضان ، ص 98

[16] رسائل نعیمیہ ، ص 294

[17] جواہر البیان ، ص 73 تا 75 ماخوذاً


Share

Articles

Comments


Security Code