اسم ِگرامی ”نبیُّ التَّوبۃِ“ اور 17 علمی نکات (قسط08)

سب سے اولی و اعلی ہمارا نبی

اسمِ گرامی “ نَبِيُّ التَّوْبَةِ “ کی 17توجیہات(قسط : 08)

* ابوالنّور راشد علی عطاری مدنی

ماہنامہ اگست2021ء

گزشتہ سے پیوستہ

امامِ اہلِ سنّت ، حضور سیّدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان حنفی  رحمۃُ اللہ  علیہ  نے نامِ مبارک “ نَبِيُّ التَّوْبَةِ “ کی 13 توجیہات شروحاتِ حديث اور كتبِ سيرت سے جبکہ 4توجیہات اپنی جانب سے ذکر فرمائی ہیں ، چنانچہ آپ لکھتے ہیں : “ نامِ مبارک “ نَبِيُّ التَّوْبَةِ “ عجب جامع و کثیرُ المنافع نامِ پاک ہے ، اس کی تیرہ توجیہیں فقیر غفرلہ المولی القدیر نے شرح صحیح مسلم للامام النووی و شرح الشفا للقاری والخفاجی و مرقاۃ واشعۃ اللمعات شروح مشکوٰۃ و تیسیر وسراج المنیر و حفنی شروح جامع صغیر و جمع الوسائل شرح شمائل و مطالع المسرات و مواہب و شرح زرقانی و مجمع البحار سے التقاط کیں اور چار بتوفیقاللہ تعالیٰ اپنی طرف سے بڑھائیں سب سترہ ہوئیں ، بَعْضُہَا اَمْلَحُ مِنْ بَعْضِ وَاَحْلی (ان میں ہر ایک دوسری سے لذیذ اور میٹھی ہے)

یہاں ان 17توجیہات کو خلاصۃً پیش کیا جاتاہے :

(1)حضورِ اقدس  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی ہدایت سے عالَم (جہان یعنی بہت بڑی تعداد)نے توبہ اور رُجوع اِلیٰاللہ کی دولتیں پائیں ، حضور کی آواز پر متفرق جماعتیں ، مختلف امتیںاللہ پاک کی طرف پلٹ آئیں۔

(2)رسولِ کریم  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی برکت سے خلائق کو توبہ نصیب ہوئی ، پہلی اور اس توجیہ میں فرق ہے یعنی ہدایت نام ہے راستہ دکھانے اور دعوت دینے کا جبکہ آپ  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی برکت ملنے سے مراد توبہ کی توفیق نصیب ہونا ہے۔

(3)جس قدر لوگوں نے رسولِ کریم  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے ہاتھ پر توبہ کی دیگر انبیائے کرام کے ہاتھوں پر نہ ہوئی۔ صحیح حدیثوں سے ثابت کہ روز قیامت یہ امت سب امتوں سے شمار میں زیادہ ہوگی ، نہ فقط ہر ایک امت جداگانہ بلکہ مجموع جمیع امم سے ، اہلِ جنّت کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی جن میں بحمدِاللہ تعالیٰ اَسی(80) ہماری اور چالیس (40) میں باقی سب امتیں ، وَالحَمدُلِلہِ رَبِّ العَالَمِین۔

(4)آپ  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  توبہ کا حکم لے کر آئے۔

(5)اللہ  عزوجل کی بارگاہ سے قبولِ توبہ کی بشارت لائے۔

(6)آپ  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  توبہ عام لائے ہر نبی صرف اپنی قوم کے لئے توبہ لائے ، جبکہ آپ تمام جہان سے توبہ لینے آئے۔

(7)بلکہ توبہ کا حکم وہی لے کر آئے کہ انبیاء علیہم الصّلوٰۃ والثناء سب ان کے نائب ہیں تو روزِ اوّل سے آج تک اور آج سے قیامت تک جو توبہ خلق سے طلب کی گئی یا کی جائے گی ، واقع ہوئی یا وقوع پائے گی۔ سب کے نبی ، ہمارے نَبِيُّ التَّوْبَہ ہیں۔

(8) “ نَبِيُّ التَّوْبَةِ “ سے مراد “ نَبِيُّ اَھْلِ التَّوْبَةِ “ ہے ، جیسا کہ قراٰنِ پاک کی آیت “ وَسْئَلِ الْقَرْیَۃ “ میں اَلْقَرْیَۃ سے مراد اَھْل الْقَرْیَۃ ہے ، اب زیادہ مناسب یہ ہے کہ توبہ سے مراد ایمان لیں ، چنانچہ “ نَبِيُّ التَّوْبَةِ “ کے معنیٰ ہوئے “ تمام اہل ایمان کے نبی “ ۔

(9)رسولِ رحمت  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی امت توابین ہیں ، وصفِ توبہ میں سب امتوں سے ممتاز ہیں ، قرآن ان کی صفت میں اَلتَّائِبُون فرماتا ہے ، جب گناہ کر بیٹھتے ہیں تو توبہ کرتے ہیں یہ امت کی فضیلت ہے اور امت کی ہر فضیلت اس کے نبی کی طرف راجع ہے۔

(10)نبیِّ رحمت  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی امت کی توبہ سب امتوں سے زیادہ مقبول ہوئی ، کہ ان کی توبہ میں صرف ندامت ، گناہ کو فوراً چھوڑ دینا اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کافی ہوا ، نبیِّ رحمت  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ان کے بوجھ اتار لئے ، اگلی امتوں کے سخت و شدید بار اِن پر نہ آنے دئیے ، اگلوں کی توبہ سخت سخت شرائط سے مشروط کی جاتی تھی ، بنی اسرائیل کو گائے کا بچھڑا پوجنے کے گناہ کی توبہ کے لئے اپنی جانوں کو قتل کرنے کا فرمایا گیا اور جب ستّر ہزار آپس میں کٹ چکے اس وقت توبہ قبول ہوئی۔

(11)پیارے آقا  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  خود کثیرُ التّوبہ ہیں ، صحیح بخاری میں ہے (حضور  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  فرماتےہیں) : میں روز اللہ  سبحانہ سے سو بار اِستِغفار کرتا ہوں۔

آپ  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی توبہ کسی گناہ سے نہ ہوتی تھی کیونکہ آپ تو گناہوں سے پاک تھے ، بلکہ آپ ہر لمحہ ترقیِ مقاماتِ قرب و مشاہدہ میں ہیں ، جیسا کہ ربّ العزت کا فرمان ہے : ( وَ لَلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰىؕ(۴) ) (ترجمۂ کنزالایمان : اور بے شک پچھلی تمہارے لیے پہلی سے بہتر ہے[1])  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

جب ایک مقام اجل واعلیٰ پر ترقی فرماتے گزشتہ مقام کو بَہ نسبت اس کے ایک نوعِ تقصیر تصوّر فرما کر اپنے رب کے حضور توبہ و اِستِغفار لاتے تو وہ ہمیشہ ترقی اور ہمیشہ توبہ بےتقصیر میں ہیں۔

(12)باب توبہ : رسولِ مکرم  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی امت کے آخر عہد میں باب توبہ بند ہوگا ، اگلی نبوتوں میں اگر کوئی ایک نبی کے ہاتھ پر تائب نہ ہو تا تو ان کے بعد آنے والے کسی دوسرے نبی کے ہاتھ پر توبہ کرلیتا تو بھی مقبول ہوتی ، جبکہ حضور خاتمُ النّبیین  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی آمد پر بابِ نبوت بند ہوگیا اورجب (قیامت سے قبل دنیا سے)آپ  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی امّت رخصت ہوجائے گی(اور صرف کفار باقی بچیں گے) تو توبہ کا دروازہ بھی بند ہوجائے گا ، جو کوئی آپ  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے دستِ اقدس پر توبہ نہ لائے (یعنی آپ پر ایمان نہ لائے) اس کے لئے کہیں توبہ نہیں۔

(13)فاتح باب توبہ : آپ  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  فاتحِ بابِ توبہ ہیں سب میں پہلے سیدنا آدم  علیہ الصلوٰۃ والسّلام  نے توبہ کی وہ آپ ہی کے توسل سے تھی تو آپ ہی اصلِ توبہ اور وسیلۂ توبہ ہیں۔

(14)حضور نبی رحمت  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  توبہ قبول کرنے والے ہیں ، آپ کا دروازۂ کرم توبہ و معذرت کرنے والوں کے لئے ہمیشہ کھلا ہے جب آپ نے کَعب بن زُہیر کا خون ان کے زمانۂ نصرانیت میں مباح فرمادیا تو بعدہ ان کے رجوع لانے اور توبہ کرنے پر ان کی توبہ بھی قبول فرمائی۔ توراۃ مقدس میں ہے : لَایَجْزِئ بِالسَّیِّئَۃِ السَّیِّئَۃَ وَلَکِن یَعْفُو وَیَغْفِرُ یعنی احمد  صلَّی اللہ  تعالیٰ علیہ وسلَّم  بدی کا بدلہ بدی نہ دیں گے بلکہ بخش دیں گے اور مغفرت فرمائیں گے۔ [2]

اسی لئے “ عَفُوّ “ اور “ غَفور “ بھی حضور اقدس  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے اسمائے طیبہ ہیں۔

(15)بندوں کو حکم ہے کہ آپ  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بارگاہ میں حاضر ہو کر توبہ و استغفار کریںاللہ تو ہر جگہ سنتا ہے ، اُس کا علم ، اُس کا سمع ، اُس کا شہود سب جگہ ایک جیسا ہے مگر حکم یہی فرمایا کہ میری طرف توبہ چاہو تو میرے محبوب کے حضور حاضر ہوجاؤ : ( وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) ) اگر وہ جو اپنی جانوں پر ظلم کریں تیرے پاس حاضر ہو کر خدا سے بخشش چاہیں اور رسول ان کی مغفرت مانگے تو ضرور خدا کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔ [3]  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

حُضورِ اکرم  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی حیاتِ ظاہری میں تو لوگ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تھے ، اب مزار پُرانوار پر حاضری ہوگی اور جہاں یہ بھی میسر نہ ہو تو دل سے حضور پُرنور  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی طرف توجہ کرے اور آپ کی بارگاہ میں فریاد ، استغاثہ اور طلبِ شفاعت کرے کہ حضور اقدس  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اب بھی ہر مسلمان کے گھر میں جلوہ فرما ہیں چنانچہ علّامہ علی قاری  رحمۃُ اللہ  علیہ  لکھتے ہیں : رُوْحُہ علیہِ السَّلام حَاضِرٌ فِی بُیُوتِ اَھلِ الاِسْلام نبیِّ کریم  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی روحِ مبارکہ ہر مسلمان کے گھر میں جلوہ فرما ہے۔ [4]

(16)آپ  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  مفیضِ توبہ ہیں توبہ آپ ہی لیتے ہیں اور آپ ہی دیتے ہیں ، آپ توبہ نہ دیں تو کوئی توبہ نہ کرسکے ، توبہ ایک نعمتِ عظمٰی بلکہ ہر نعمت سے بڑی نعمت ہے اور نصوص متواترہ اولیائے کرام وعلمائے اعلام سے ثابت ہو چکا کہ ہر نعمت قلیل یا کثیر ، صغیر یا کبیر ، جسمانی یا روحانی ، دینی یا دنیوی ، ظاہری یا باطنی ، روزِ اول سے اب تک ، اب سے قیامت تک ، قیامت سے آخرت ، آخرت سے ابد تک ، مؤمن یا کافر ، مطیع یا فاجر ، فرشتہ یا انسان ، جن یا حیوان بلکہ ذاتِ الٰہی کے سوا جسے جو کچھ ملی یا ملتی ہے یا ملے گی سب انہیں کے ہاتھوں پر بٹی اور بٹتی ہے ، خود فرماتے ہیں : اَنَا اَبُو الْقَاسِمِ اللَّهُ يُعْطِي وَاَنَا اَقْسِمُ میں ابوالقاسم ہوںاللہ دیتا ہے اور میں تقسیم کرتا ہوں۔ [5]

(17)گناہوں سے ان کی طرف توبہ کی جاتی ہے توبہ میں ان کانام اللہ  رب العزّت کے نام کے ساتھ لیا جاتا ہے کہ میںاللہ و رسول کی طرف توبہ کرتا ہوں ، اُمُّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ  رضی اللہ  عنہا  نے عرض کی : يَا رَسُولَ اللَّهِ اَتُوبُ اِلَى اللَّهِ ، وَاِلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاذَا اَذْنَبْتُ؟یارسولَ اللہ ! میںاللہ اوراللہ کے رسول کی طرف توبہ کرتی ہوں مجھ سے کیا خطا ہوئی؟[6]

معجم کبیر میں حضرت ثوبان  رضی اللہ  عنہ  سے ہے : ابوبکر صدیق و عمر فاروق وغیرہما چالیس اجلّہ صحابہ کرام  رضی اللہ  تعالیٰ عنہم  نے حضور اقدس  صلَّی اللہ  تعالیٰ علیہ وسلَّم  کی طرف کھڑے ہو کر ہاتھ پھیلا کر لرزتے کا نپتے حضور سے عرض کی : تُبْنَا اِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ ہماللہ اور اس کے رسول کی طرف توبہ کرتے ہیں۔ [7]

امامِ اہلِ سنّت مزید فرماتے ہیں : توبہ کے معنی ہیں نافرمانی سے باز آنا ، جس کی معصیت کی ہے اس سے عہدِ اطاعت کی تجدید کر کے اسے راضی کرنا ، اور نصِ قطعی قرآن سے ثابت کہاللہ عزوجل کا ہر گنہگار حضور سید عالم  صلَّی اللہ  تعالیٰ علیہ وسلَّم  کا گنہگار ہے۔ قالَاللہ تعالیٰ : ( مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ- ) جس نے رسول کی اطاعت کی اس نےاللہ کی اطاعت کی۔ [8]  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اس کو عکس نقیض ، مَنْ لَمْ یُطِعِ اللہ  لَمْ یُطِعِ الرَّسُوْلَ ، لازم ہے اور ہمارے قول “ مَنْ عَصَی اللہ  فَقَد عَصَی الرَّسُولَ “ کا یہی معنی ہے۔ اور قرآن عظیم حکم دیتا ہے کہاللہ و رسول کو راضی کرو۔ قالَاللہ تعالیٰ :

( وَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْهُ اِنْ كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ(۶۲) ) سب سے زیادہ راضی کرنے کے مستحقاللہ و رسول ہیں اگر یہ لوگ ایمان رکھتے ہیں۔ [9]  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اللہ  کریم ہمیں بھی نبی التوبہ جنابِ محمد مصطفےٰ  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے وسیلۂ جلیلہ سے ہر طرح کی خطاؤں اور گناہوں کی معافی عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ ، کراچی



[1] پ30 ، الضحیٰ : 4

[2] بخاری ، 2 / 25 ، حدیث : 2125 ، سنن دارمی ، 1 / 16 ، حدیث : 5

[3] پ5 ، النسآء : 64

[4] شرح شفاء للقاری ، 2 / 118

[5] مستدرک للحاکم ، 3 / 502 ، حدیث : 4243

[6] بخاری ، 2 / 21 ، حدیث : 2105

[7] معجم کبیر ، 2 / 95 ، حدیث : 1423

[8] پ5 ، النسآء : 80

[9] 10 ، التوبہ : 62


Share

Articles

Comments


Security Code