اسلامی عقائد ومعلومات
نوافل و تلاوت کی کثرت کرنے والے بزرگانِ دین(تیسری اور آخری قسط)
* مولانا محمد عدنان چشتی عطاری مدنی
ماہنامہ اگست2021ء
راتوں کو جاگ کر اللہ کریم کی عبادت کرنا ، تلاوت قراٰن کرنا ، دن اور رات میں نوافل کثرت سے پڑھنا اسلاف کرام بزرگانِ دین کا شب و روز کا معمول رہا ہے ، آئیے چند بزرگانِ دین کے معمولات ملاحظہ کیجئے :
بکثرت تلاوتِ قراٰن کرنے والے بزرگ
(1)امیر المؤمنین فی الحدیث ، حضرت امام محمدبن اسماعىل بخارى رحمۃُ اللہ علیہ پورا رَمَضانُ المبارک دن میں ایک قراٰنِ پاک ختم فرماتےاور تراویح کے بعد نوافل میں ہر تین رات میں ایک قراٰن ختم فرماتے۔ [1]
(2)شیخُ الصّوفیہ حضرت امام ابوبکر محمد بن علی کَتَّاِنیْ رحمۃُ اللہ علیہ اللہ پاک کے ایسے ولی تھے کہ آپ نے طواف کے دوران 12 ہزار قراٰن ِپاک ختم فرمائے۔ [2]
(3)شیخُ الاسلام حضرت امام ابو بکر بن عَیّاش رحمۃُ اللہ علیہ نے اپنی زندگی کے40 سال یوں گزارے کہ ہر رات اور دن میں ایک قراٰنِ کریم ختم کیا کرتے تھے۔ [3]
(4)حضرت ثابِت بُنانی رحمۃُ اللہ علیہ روزانہ ایک بار ختمِ قراٰنِ پاک فرماتے تھے۔ آپ ہمیشہ دن کوروزہ رکھتے اور ساری رات قِیام (عبادت) کرتے ، جس مسجِد سے گزر تے اس میں دو رَکعت (تَحِیَّۃُ الْمَسْجِد)ضَرورپڑھتے۔ تحدیثِ نعمت کے طور پر فرماتے ہیں : میں نے جامِع مسجِد کے ہرسُتُون کے پاس قراٰنِ پاک کا ختم کیا اور بارگاہ ِ الٰہی میں گِریہ و زاری کی ہے۔ نَماز اور تِلاوتِ قراٰن سے آپ کو خُصوصی مَحَبَّت تھی ، آپ پر ایسا کرم ہوا کہ رشک آتا ہے۔ منقول ہے : جب بھی لوگ آپ کے مزارِ پُراَنوارکے قریب سے گزرتے تو قبرِ انور سے تِلاوتِ قراٰن کی آواز آرہی ہوتی۔ [4]
(5)فنِّ تعبیر کے مشہور امام حضرت امام محمد بن سِیْرِین رحمۃُ اللہ علیہ کی بہن حضرت سیِّدَتُنا حَفْصَہ رحمۃُ اللہ علیہا کا شمار تابعی خواتین میں ہوتا ہے ، آپ 30 سال تک اپنی عبادت گاہ سے بغیر کسی ضرورت کے باہر نہ آئیں ، ہر رات آدھا قراٰن پڑھ لیا کرتی تھیں نیز عیدَین اور اَیّامِ تشریق کے علاوہ پورے سال کے روزے رکھتیں ، آپ کی باندی سے ایک بار پوچھا گیا کہ تم اپنی مالکہ کو کیسا پاتی ہو؟ اس نے جواب دیا : وہ بہت نیک عورت ہیں اگر خدا نخواستہ کبھی ان سے کوئی غلطی ہوبھی جائے تو وہ ساری رات نماز پڑھتی رہتی ہیں اور روتی رہتی ہیں۔ آپ رحمۃُ اللہ علیہا رات میں چَراغ روشن کرکے عبادت کےلئے کھڑی ہوجاتیں ، کئی بار ایسا بھی ہوتا کہ چراغ بُجھ جانے کے باوجود بھی صبح تک آپ کا گھر روشن رہتا۔ [5]
(6)حضرت ابو عبدُاللہ محمد بن خفیف شیرازی رحمۃُ اللہ علیہ (وفات : 371ھ) فرماتے ہیں : میں اپنے ابتدائی دور میں بسا اوقات ایک ہی رکعت میں 10 ہزار مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھتا تھا اور کبھی ایک رکعت میں پورا قراٰنِ پاک پڑھ لیاکرتا تھا اوربعض اوقات صبح سے عصرتک ایک ہزاررکعات نوافل پڑھتا تھا۔ [6]
(7) حضرت علامہ ضیاء مَقْدِسِی رحمۃُ اللہ علیہ قطبِ زمانہ حضرت امام ابوعمر محمد بن احمد مقدسی رحمۃُ اللہ علیہ کے مجاہدے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : آپ رحمۃُ اللہ علیہ جب بھی کوئی دعا سُنتے اسے یاد کرلیتےاور وہ دعا مانگتے ، جس نماز کا ذکر سُنتے اسے ادا کرلیتے ، جو حدیث شریف سُنتے اس پر عمل کرتے۔ عمر رسیدہ ہونے کے باوجود لوگوں کو شبِ برأت میں ایک سو رکعت باجماعت پڑھایا کرتے تھے۔ پوری جماعت میں سب سے زیادہ فرحت و تازگی آپ پر ہوتی تھی ، جوانی کی عمر سے ہی کبھی رات کا قیام ترک نہ کیا ، میں نے ان کے ساتھ کئی جنگوں میں شرکت کی ہم میں سے بعض نے یہ ارادہ کیا کہ کوئی ایک آدمی جاگ کر پہرہ دے اور باقی سو جائیں تو شیخ ابو عمر رحمۃُ اللہ علیہ فرمانے لگے کہ تم سوجاؤ اور خود نماز ادا کرنے لگے ، ساری رات نماز پڑھتے رہے۔ حضرت احمد بن یونس مقدسی علیہ الرَّحمہ نے فرمایا : سفر میں آپ کا معمول تھا کہ راتوں کو نماز ادا کرتے اور ہمسفر وں کی جان و مال کی حفاظت کرتے تھے۔ آپ کے بیٹےعبدُاللہ کا بیان ہے کہ آپ روزانہ رات کو نماز میں قراٰنِ پاک کی ایک منزل ترتیل سے تلاوت فرماتے۔ دن میں روزانہ ظہر سے عصر کے دوران ایک منزل تلاوت فرماتے۔ [7] آپ رحمۃُ اللہ علیہ روزانہ دن رات میں بہتّر رکعات نوافل ادا کیا کرتے تھے۔ [8]
عشا ء کے وضو سے فجر کی نماز
صحاح سِتّہ کے جلیلُ القدر راوی شیخُ الاسلام حضرت سلیمان بن طِرْخَان تَیْمِی رحمۃُ اللہ علیہ کے بیٹے اپنے والد کے بارے میں بتاتے ہیں : میرے والدِ گرامی کا معمول تھا کہ چالیس سال تک ایک دن روزہ رکھتے ایک دن افطار کرتے (روزہ چھوڑتے) اور(ساری رات جاگ کر ) عشاء کے وضوسے نماز فجر ادا کرتے تھے۔ [9]
حضرت رَقَبَہ بِنْ مَصْقَلَہ رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں اللہ پاک کا دیدار کیا تو اللہ کریم کو یہ ارشاد فرماتے سنا : میں سلیمان تیمی کی آرام گاہ کو ضرور عزت بخشوں گا ، اس نے 40 سال تک عشا کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی ہے۔ [10]
حضرت سلیمان بن طِرْخَان رحمۃُ اللہ علیہ ساری ساری رات نماز پڑھتے تھےاور صبح کی نماز عشاء کے وضو سے ادا فرماتے۔ آپ اور آپ کا بیٹا معتمر ساری رات مختلف مساجد میں پھرتے رہتے تھے ، کبھی اِس مسجد میں نماز پڑھتے اور کبھی اُس مسجد میں ، حتّٰی کہ انہیں صبح ہو جاتی۔ [11]
حضرت امام ابو طالب مکی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وہ بزرگانِ دین جن کے متعلق مشہور ہے کہ وہ رات بھر عبادت میں مصروف رہتے اور 30 یا 40 سال تک عشا کے وضو سے نمازِ فجر ادا کرتے رہے ، کہا جاتا ہے کہ ان کی تعداد صرف تابعین عظام میں سے تقریباً 40 ہے۔
پھر آپ نے مکہ پاک ، مدینہ شریف ، یمن ، شام ، کوفہ ، عباد ، ایران اور بصرہ کے ان اولیاء کے نام بھی گنوائے جو 30 یا 40 سال تک عشا کے وضو سے نمازِ فجر ادا کرتے رہے ہیں۔ [12]
نقّاد محدث حضرت امام ذہبی رحمۃُ اللہ علیہ اور علامہ ابنِ جوزی رحمۃُ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں : صَلَّى عَبْدُالوَاحِدِ بنُ زَيْدٍ الصُّبْحَ بِوُضُوْ ءِ العَتَمَةِ اَرْبَعِيْنَ سَنَةً یعنی حضرت عبدُالواحد بن زید رحمۃُ اللہ علیہ نے چالیس سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا فرمائی۔ [13]
کروڑوں حنفیوں کے امام حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃُ اللہ علیہ نے تیس سال مسلسل روزے رکھے۔ تیس سال تک ایک رکعت میں قراٰنِ پاک ختم کرتے رہے۔ چالیس (بلکہ 45)سال تک عشا ء کے وُضُو سے فجر کی نماز ادا کی ، جس مقام پر آپ کی وفات ہوئی وہاں آپ نے سات ہزار قراٰنِ پاک ختم فرمائے تھے۔ [14]
حضرت شیخ ابو عبداللہ محمد ہروی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے چالیس سال تک حضرت شیخ عبدُالقادر جیلانی رحمۃُ اللہ علیہ کی خدمت کی ، اس مدت میں آپ عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھتے تھے اور آپ کا معمول تھا کہ جب بے وضو ہوتے تھے تو اسی وقت وضو کر کے دو رکعت نمازِنفل پڑھتے۔ [15]
حضرت سعید بن مسیّب ، حضرت عمرو بن عبید ، حضرت وَہب بن مُنَبِّہ اور حضرت عبدُالرحمٰن بن اسود جیسے جلیل القدر بزرگانِ دین کے بارے میں بھی اس طرح کے اقوال ملتے ہیں کہ انہوں نے عشا کے وضو سے فجر کی نماز ادا فرمائی۔
اللہ کریم ان نفوسِ قدسیہ پر اپنی بےشمار رحمت فرمائے اور ان کے صدقے ہمیں بھی فرائض و نوافل پر استقامت عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* رکن مجلس المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) ، کراچی
[1] ارشاد السارى ، 1 / 64
[2] سیر اعلام النبلا ، 11 / 469
[3] سیر اعلام النبلا ، 7 / 686
[4] حلیۃ الاولیاء ، 2 / 364تا366ملتقطاً و ملخصاً
[5] صفۃ الصفوہ ، جزء4 ، 2 / 22 ، 21
[6] رسالہ قشیریہ ، ص82
[7] تاریخ الاسلام للذہبی ، 43 / 267
[8] تاریخ الاسلام للذہبی ، 43 / 268
[9] سیراعلام النبلاء ، 6 / 398
[10] سیراعلام النبلاء ، 6 / 197 ، جامع الاصول فی احادیث الرسول ، 13 / 150 ، رقم : 1117
[11] تہذیب الکمال ، 12 / 8
[12] قوت القلوب ، 1 / 83
[13] سیر اعلام النبلاء ، 7 / 178 ، حفظ العمر لابن الجوزی ، ص51
[14] خیرات الحسان ، ص50
[15] بہجۃالاسرار ، ص164
Comments