حدیث شریف اور اُس کی شرح
قابلِ رشک دو چیزیں
* مولانا محمد ناصر جمال عطاری مدنی
ماہنامہ اگست2021ء
آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : لَا حَسَدَ اِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ : رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسُلِّطَ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ ، وَ رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْحِكْمَةَ فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا یعنی صرف دو خوبیوں(کے حامل) پر حسد (جائز) ہے : (1)وہ شخص جسے اللہ کریم نے مال عطا فرمایا اور اُسے راہِ حق میں خرچ کرنے کی توفیق دی گئی ہو (2) وہ شخص پرجسے اللہ پا ک نے علم دیا ہو ، پس وہ اُس کے مطابق فیصلے کرتا ہو اوراُ سے(دوسروں کو) سکھاتا ہو۔[1]
مذکورہ حدیثِ پاک میں دو نعمتوں کی تمناکو پسندیدہ قرار دیا گیا ہے اور مالی صدقے اور علم کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔[2] بظاہر اس حدیث سےایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان دو چیزوں میں حسد جائز ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ، حسد تو ہر حال میں برا اور گناہ ہے بلکہ یہاں حسد سے مراد غِبْطہ یعنی رشک ہے۔
اچھی چیزوں میں رشک کرنا جائز بلکہ مومن کی خوبی ہے کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ کسی کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر اس کے حصول کی تمنا کرنا اور دوسرے سے اس کے زائل ہونے کی خواہش نہ کرنا ۔ دنیا کی چیزیں اللہ پاک کی ناراضی کا ذریعہ بن جاتی ہیں لہٰذا وہ تو رشک کے قابل ہی نہیں البتہ راہِ خدا میں خرچ کیا جانے والا مال اور علم و حکمت اللہ پاک کی خوشنودی کا ذریعہ ہیں۔
حدیث ِ پاک میں دوخوبیاں بیان کی گئی ہیں :
(1) اللہ پاک کسی کو مال عطا فرمائے یہ اس کا فضل ہے ، اور اسے اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق دے یہ اس کا دوسرا فضل ہے۔ راہ ِ حق میں خرچ کرنے سے مراد ہر اس کام میں خرچ کرنا ہے جو شریعتِ مُطہّرہ کے خلاف نہ ہو۔ لہٰذا اگر کوئی شخص وہاں مال خرچ کرے جہاں خرچ نہیں کرنا چاہئے تو اس پر رشک نہیں کرسکتے اور نہ ہی وہ کسی فضیلت کا حق دار ہے[3]
(2)دوسرا وہ شخص جسے اللہ پاک نے علم و حکمت سے نوازا وہ اس حکمت کی روشنی میں فیصلے کرتا اور اسے دوسروں تک پہنچاتا ہے ، یہاں حکمت سے قران پاک مراد ہے یا پھر ہر وہ شے جو جہالت دور کرے اور برے کاموں سے روکے [4]
حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ ان دوخوبیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : دیکھ لیجئے کہ مالدار سخی اور عالمِ دین کی زندگی کے سوا کسی امیر ، وزیر یا بادشاہ کی زندگی کو بھی حضور ِاکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قابل ِرشک نہیں فرمایا ہے۔ لہٰذا پتہ چلا کہ علماء ِدین کی مقدس زندگی ساری دنیا کے لئے قابل ِرشک ہے اور جب علماء ِکرام کی زندگی قابلِ رشک زندگی ہے تو پھر علماءِ کرام کے لئے احساسِ کمتری کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ علماء ِحق بلاشبہ خدا کی زمین پر چمکتے ہوئے چراغِ ہدایت ہیں۔ خداوند ِکریم نے ان کو اپنے ’’خیرِعظیم‘‘ کے ساتھ نوازا ہے اسی لئے زمین پر درندے ، چرندے ، پرندے ، چیونٹیاں اپنے بلوں میں ، مچھلیاں دریاؤں میں ان کیلئے دعائے رحمت کو اپنا وظیفہ بنائے ہوئے ہیں۔ فرشتوں کی مقدس جماعت ان شائقینِ علمِ دین کی رضا جوئی کے لئے اپنے پَر بچھا دیتی ہے۔ سبحانَ اللہ ، سبحانَ اللہ! جب خالق ِکائنات کا فضل و کرم اور کائناتِ عالم کی دعائیں ، ملائکہ کے بچھے ہوئے پَر ، علماءِ دین کا اعزاز بڑھا رہے ہیں تو اگر چند مردار قسم کے دنیا دار لوگ علماء ِرَبَّانِیِّیْن کو حَقارَت کی نظر سے دیکھیں تو اس کا کیا غم ہے! جو لوگ آج علماء کرام کو حَقارَت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے مقدس رسولوں کے فرمانوں سے منہ موڑ لیا ہے اور دنیا کی دولت پر مغرور ہوکر اور اللہ کے نیک بندوں کی تحقیر و تذلیل کرکے اپنی آخرت کو خراب کر رہے ہیں۔
علماء ِحق کو لاز م ہے کہ ان مغرور و بد خصال جُہال (یعنی بدترین جاہلوں)کی اِیذا رَسانِیوں پر صبر کریں اور ہرگز ہرگز دل شکستہ ہو کر اِعْلاء کلمۃُ الْحَق(کلمۂ حق بلند کرنے)کے منصبِ جلیل سے الگ نہ ہوں۔ خداوند ِ قدوس نے اپنے حبیب علیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کو یہ حکم دیا ہے کہ ( خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(۱۹۹) ) یعنی اے محبوب! آپ لوگوں کی خطاؤں کو معاف فرما دیں اور نیکی کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے اعراض کرتے رہیں۔[5] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
مذکورہ حدیث کے تحت چند فوائد ومسائل ملاحظہ کیجئے : (1)حسد کے خیال کا عملی طور پر اظہار حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے[6] (2)فرائض و واجبات پر رشک کرنا واجب ، مستحب کاموں میں رشک کرنا مستحب اور مباح کاموں میں رشک کرنا مباح ہے[7] (3) کسی نعمت والے سےجلنا اور اس کی نعمت کا زوال اوراپنے لئےحصول چاہنا حسد ہے۔ حسد بہت بری صفت ہے جبکہ اللہ پاک کی عطا کردہ نعمتوں پر رشک کرنا ایک اچھی صفت ہے لیکن یہ رشک بھی اعلیٰ چیزوں میں ہونا چاہئے (4)اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنا اور علم دین سیکھ کر اس کی روشنی میں فیصلے کرنا اور اس کی نشر و اشاعت کرنا بہت بڑی نیکی ہے (5)یاد رکھئے! اس حدیثِ پاک میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہرگز حسد کرنے کی اجازت نہیں دی اور نہ ہی یہاں حسد کا مذموم معنیٰ مراد ہے بلکہ یہاں حسد سے مراد غِبْطَہ ہے لہٰذا حدیث ِ رسول کو سمجھنے کے لئے شارحینِ حدیث کو پڑھنا ضروری ہے ورنہ گمراہ ہوجانے اور بھٹک جانے کا خطرہ ہے۔
مال داروں کو چاہئے کہ دین ِ اسلام کی اشاعت ، اہل و عیال کی خدمت ، حج و عمرہ جیسی عظیم عبادت اور اِن جیسے دیگر نیک کاموں میں اللہ پاک کی دی ہوئی دولت خرچ کریں یوں ہی اہل ِ علم کو چاہئے کہ وہ نورِ علم پھیلانے میں آگے آگے رہیں تاکہ اِن دونوں طبقوں کو دیکھنے والے ترغیب پائیں اور عملی زندگی میں اِن دونوں خوبیوں کوپانے کی خوب کوشش کریں۔ جن لوگوں کے پاس راہِ خدا میں خرچ کرنے کے لئے بہت زیادہ دولت نہیں تو وہ راہ ِ خدا میں خرچ کرنے والے دولت مندوں کو رشک بھری نظروں سے دیکھ کریہ ذہن بنانے کی کوشش کریں کہ “ بارگاہِ الہٰی میں اخلاص دیکھا جاتا ہے ، اگرچہ میرے پاس راہِ خدا میں خرچ کرنے کے لئے دولت کے انبار تو نہیں ہیں لیکن میں اپنی اِس تھوڑی سی رقم میں بہت سارا اخلاص شامل کرکےراہِ خدا میں دے دوں تو رحمتِ خداوندوی سے امید ہےکہ وہ مجھے بےحساب اجروثواب سے نوازے گا ۔ “ اسی طرح اہل ِ علم کو رشک بھری نظروں سے دیکھنے والے یہ ذہن بنائیں کہ “ علمی ترقی کے لئے مسلسل کوشش ضروری ہےلہٰذا علم میں اضافے کے لئے مجھے بھی خوب کوشش کرنی چاہئے۔ “
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ،ذمہ دار شعبہ فیضان اولیا و علما، المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) ، کراچی
[1] بخاری، 1/43، حدیث:73
[2] نزہۃ القاری، 1/428، اللامع الصبیح، 1/380، تحت الحدیث:73
[3] ضیاء الساری، 2/225
[4] ضیاء الساری، 2/225
[5] منتخب حدیثیں، ص 106
[6] حدیقہ ندیہ، 1/601
[7] احیاء العلوم، 3/236 ماخوذاً
Comments