تبصرے(Comments)

کتابِ زندگی

تبصرے (Comments)

* مولانا ابورجب محمد آصف عطاری مدنی

ماہنامہ اگست2021ء

کہتے ہیں کہ کسی شخص کے پاس ایک گدھا تھا۔ ایک دن وہ اسے بیچنے کے لئے چلاتو اس کا بیٹا بھی ساتھ ہولیا ۔ راستے میں ایک جگہ عورتیں کنویں سے پانی بھر رہی تھیں ، باپ بیٹے کو گدھے کے ساتھ پیدل چلتا دیکھ کر آپس میں کہنے لگیں کہ یہ دونوں کتنے نادان(یعنی ناسمجھ) ہیں سواری پاس ہوتے ہوئے بھی پیدل جارہے ہیں !یہ تبصرہ (Comment)باپ نے سُن لیا اور بیٹے سے کہنے لگا : تم گدھے پر بیٹھ جاؤ میں پیدل چلتا ہوں۔ ابھی تھوڑی دُور ہی گئے ہوں گے کہ چند بڑی عمر کے لوگ ملے جو انہیں دیکھ کر کہنے لگے : دیکھو جی! کیا زمانہ آگیا ہے بوڑھا باپ پیدل چل رہا ہے اور بیٹا سواری کے مزے لے رہا ہے!یہ سُن کر بیٹا سواری سے نیچے اُتر آیا اور اصرار کرکے باپ کو سوار کرادیا ، تھوڑا آگے چلے تو انہیں جوانوں کا ایک گروپ ملا جو انہیں دیکھ کر کہنے لگا : کتنا سنگدل باپ ہے خود سواری پر بیٹھا ہے اور بیٹے کو پیدل چلا رہا ہے! یہ سُن کر باپ نے بیٹے کو اپنے ساتھ سواری پر بٹھا لیا ، ابھی انہوں نے تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ انہیں کچھ اور لوگ ملے جن میں سے ایک شخص نے تبصرہ (Comment) کیا : میاں! مجھے نہیں لگتا کہ یہ گدھا تمہارا ہے!کیونکہ یہ مر مر کر(یعنی بہت مشکل سے) چل رہا ہے اور تم دونوں اس پر مزے سے چڑھے بیٹھے ہو!

ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین! کسی کی ذات ، صفات ، لباس ، اندازِ گفتگو ، چال ڈھال ، کام کاج ، رہن سہن اور کارکردگی وغیرہ کے بارے میں تبصرے کرنا ہمارے یہاں عام ہےاور اسے اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔ گھروں ، دفاتر ، فیکٹریوں ، بازاروں ، میڈیا اور سوشل میڈیا وغیرہ میں اچھے بُرے ہر طرح کے تبصرے ہو ہی رہے ہوتے ہیں۔ ان تبصروں کا نشانہ ہماری اپنی اولاد یا بیوی بھی ہوسکتی ہے اور آفس میں ساتھ کام کرنے والے بھی! دکاندار بھی ہوسکتا ہے اور گاہک بھی! پھریہ تبصرے مثبت (Positive) بھی ہوتے ہیں اور منفی (Negative) بھی !یاد رکھئے !ہمارا تبصرہ کسی کو بگاڑ بھی سکتا ہے اور سنوار بھی! یہ کسی کو پریشانی بھی دے سکتا ہے اور آسانی بھی! مایوسی کا شکار ہونے والا ہمارے مثبت تبصرے سے کامیابی کی تلاش میں نکل سکتا ہے ، کسی کو ترقی کرنے کا جذبہ مل سکتا ہے ، اس کی مہارت (Skill) میں اضافہ ہوسکتا ہے ، کوئی جنّت میں لے جانے والے راستے پر چل سکتا ہے اور ہمارا ایک منفی تبصرہ ’’گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو‘‘کا کردار ادا کرکے کسی کو خودکشی پر مجبور کرسکتا ہے ، کسی کا ہنستا بستا گھر اُجاڑ سکتا ہے ، کسی کا کیرئیر تباہ کرسکتا ہے ۔

استاذ ، پیر ، ماں باپ ، خاندان والوں کے تبصرے (Comments) انسان کے لئے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں ، اس لئے ہمیں یہ خیال رکھنا چاہئے کہ ہم کہاں ، کب اور کس کے بارے میں ، کس کے سامنے کیا کمنٹ کررہے ہیں! اس کے ساتھ ساتھ یہ تبصرے ہماری مثبت یا منفی سوچ بھی ظاہر کرتے ہیں اور ہماری شخصیت کا تعارف بھی کرواتے ہیں کہ ہم کس قسم کے انسان ہیں! اس لئے جب کسی کے بارے میں تبصرہ کرنے لگیں تو ’’پہلے تولو بعد میں بولو‘‘کے اصول پر عمل کرلیجئے ، اِن شآءَ اللہ فائدے میں رہیں گے۔ ان مثالوں کی مدد سے اپنے تبصرے کے مثبت

یا منفی ہونے کا فیصلہ کرنا قدرے آسان ہوجائے گا :

مثبت تبصرے کی20 مثالیں : وہ تبصرے جس میں کسی کی حوصلہ افزائی کی گئی ہو ، کسی کو تسلی دی گئی ہو یا ہمت دلائی گئی ہو جیسے : (1)خوب (2)شاندار (3)مجھے آپ کی بات پسند آئی (4)آپ کااندازِ گفتگو اچھا لگا (5)آپ کی کارکردگی پہلے سے بہتر ہے (6)آپ نے جو نعت شریف پڑھی اس کی طرز منفرد تھی(7)آپ نے اس عنوان پر اچھے پوائنٹس بیان کئے (8)آپ سے مل کر خوشی ہوئی (9)آپ کا بیان معلوماتی تھا (10)آپ کی کتاب دلچسپ ہے(11)آپ نے بڑا عُمدہ ڈیزائن بنایا ہے (12)آپ کا بنایا ہوا کھانا بہت مزیدار ہے ، میں تو انگلیاں چاٹتا رہ گیا (13)آپ کے گھر کی صفائی دیکھنے کے لائق ہے(14)آپ کی شخصیت (Personality) شاندار ہے (15)ناکامی کامیابی کا زینہ (یعنی سیڑھی) ہوتی ہے (16)ہمت نہ ہاریں ہر مشکل کے بعد آسانی ہے (17)گرتے ہیں شہسوار ہی میدان میں (یعنی غلطی کچھ کرنے والوں سے ہی ہوتی ہے ، آپ ان سے تو بہتر ہیں جو کچھ کرنے کا حوصلہ ہی نہیں رکھتے) (18)صبح کا بُھولا شام کو آجائے تو اسے بُھولا نہیں کہتے(یعنی غلطی کرنے والا اگر اپنی غلطی درست کرلے تو اسے بُرا نہیں کہنا چاہئے) (19) جب جاگے ہوا سویرا (یعنی اپنی غلطی کا احساس ہونے پر مایوس ہونے کے بجائے اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کرنی چاہئے) (20)صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے (مطلب : جلدی نہیں مچانی چاہئے ، صبر کا نتیجہ اچھا ہوتا)۔

احتیاط کیجئے : یہ خیال رہے کہ مثبت تبصرہ کرتے وقت جھوٹ سے بھی بچا جائے ، جھوٹ وہ جو سچ کا اُلٹ ہو ، اس لئے وہی بات کہی جائے جو سچ ہو۔ ’’بہت پسند آیا ‘‘اسی وقت بولئے جب ’’بہت ‘‘پسند آیا ہو ، ورنہ صرف ’’پسند آیا‘‘کہئے ، سمجھدار کے لئے اشارہ ہی کافی ہے ۔ اسی طرح تبصرہ کرتے وقت نیت کا خیال رکھئے کیونکہ دلجوئی ، حوصلہ افزائی ، ڈھارس ، تسلی اور چیز ہے جبکہ خوشامد اور چیز !

سینڈ وچ ٹیکنیک(Sandwich technique) : مثبت تبصرے کو کسی کی اِصلاح (دُرُستی)کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ، اسے سینڈوچ ٹیکنیک بھی کہتے ہیں وہ اس طرح کہ پہلے اس کے کام کی سچی تعریف کردیجئے پھر جس خامی کی نشاندہی کرنا ہو اسے اچھے لہجے اور الفاظ میں بیان کردیجئے اور آخر پر اسے دعاؤں سے نواز دیجئے ۔

منفی تبصر ے کی 34مثالیں : وہ تبصرہ جو کسی کی حوصلہ شکنی کا سبب بنے ، اس کی ہمت توڑ دے ، اسے مایوس کردے یا اس کا دل دُکھانے کا سبب بنے مثلاً(1)تمہیں نہ جانے کب عقل آئے گی (2)یہ تمہاری نااہلی ہے (3)تم ہمیشہ لیٹ آتے ہو (4)اس ناکامی کے ذمہ دار تم خود ہو (5)تمہارا رویہ افسوس ناک ہے (6)مجھے پہلے ہی ڈر تھا کہ تم کام بگاڑ دو گے (7)یہ کام تمہارے بس کی بات نہیں (8)بے وقوفی کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے (9)تم سے مل کر مجھے ذرا بھی خوشی نہیں ہوئی (10)تمہیں دیکھ کر میرا خون کھولنے لگتا ہے (11)تمہیں نوکری تو ملنی نہیں پکوڑوں کی ریڑھی لگا لو (12)تمہارے دماغ میں بھس بھرا ہوا ہے (یعنی تم بہت بےوقوف ہو) (13)صرف پاس ہو کر تم نے کونسا تیر مار لیا ہے پوزیشن لیتے تو بات بنتی (14)تمہارا  مضمون سطحی نوعیت کا ہے (15)لمبی لمبی مت چھوڑو (یعنی جھوٹ نہیں بولو) (16)اب خوشامد کررہے ہو (17)تم مجھے اُلّو (یعنی بے وقوف)بنارہے ہو (18)تم مطلبی ہو (19)لالچی ہو (20)تم دھوکے باز ہو(21)تم سے خیرکی امید نہیں (22)تم نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے (یعنی اپنا نقصان خود کیا ہے)(23)تم نہیں بدل سکتے (24)ان تِلوں میں تیل نہیں (یہاں کام نہیں بنے گا) (25)لوٹ کے بدھو گھر کو آئے(غلطیوں کے سبب ، وہیں واپس آگئے جہاں سے چلے تھے) (26)کوّا چلاہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا (جب کوئی کسی مالدار یا صاحبِ حیثیت آدمی کی رِیس (پیروی)کرکے نقصان اٹھائے تو اس وقت کہتے ہیں) (27)یہ منہ اور مَسور کی دال (تم اس لائق نہیں) (28)کام کا نہ کاج کا دشمن اَناج کا (سُست اور کاہل آدمی جس کا کھانے کے سوا اور کوئی کام نہ ہو) (29)مفت کی روٹیاں کب تک توڑو گے(30)وہ اندھی چلاتا ہے(یعنی اپنی مرضی کرتا ہے) (31)میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑواتُھو (جو خود کو پسند ہواسے قبول اور جو پسند نہ ہواسے قبول نہیں کرتے) (32)اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے (یہ اس وقت بولتے ہیں جو کسی کے قابو میں نہ آتا ہو ، پھر کسی مصیبت میں گرفتار ہوجائے) (33)رسی جل گئی مگر بل نہ گیا(یعنی شان وشوکت چلی گئی تکبر نہ گیا) (34)تمہاری گردن میں سریا آگیا ہے (یعنی تم تکبر کرنے لگے ہو)۔

منفی تبصرہ کرتے وقت غیبت ، بہتان اور دل آزاری سے بچنا بہت دشوار ہے ، چنانچہ اس سے بچنے ہی میں عافیت ہے ۔ مولا کریم ہمیں زبان کی احتیاطیں اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* استاذ المدرسین ، مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ ، کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code