امیرِ اہلِ سنت کی معاشی زندگی اور دیانت داری
*مولانا صفدر علی عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر 2024
رزقِ حلال کمانا انبیائے کرام علیہمُ السّلام اور سلف صالحین کا طریقہ رہا ہے، خود تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی تجارت کے ذریعے رزقِ حلال کمایا اور کئی احادیثِ مبارَکہ میں اپنے امتیوں کو رزقِ حلال کمانے کی ترغیب بھی ارشاد فرمائی۔ چنانچہ ایک حدیثِ پاک میں ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: رزقِ حلال کی تلاش فرائض کی ادائیگی کے بعد ايک فرض ہے۔ ([i])
شیخِ طریقت امیرِ اہلِ سنّت حضرت علامہ محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہکی زندگی کے دیگر پہلوؤں کی طرح معاشی پہلو بھی بہت صاف ستھرا اور سبق آموز ہے۔
کاروبار میں دیانت بہت ضروری ہے، آج ہم دیکھتے ہیں کہ کاروبار میں لوگ جھوٹ بولتے ہیں، دھوکے دیتے ہیں، عیب دار چیزیں بیچتے ہیں لیکن امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کا انداز کیا کمال ہوتا تھا چنانچہ ایک مدنی مذاکرے کے دوران آپ نے فرمایا کہ ایک دور ایسا تھا کہ ’’مىں کھوپرے کا تىل بوتلوں میں بھرکربىچتا تھا، وہ تیل ایسے مُلک سے آتا تھا جہاں کھوپرا بکثرت ہوتا ہے، وہ تیل Pure (خالص) اور Super quality (عُمدہ معیار) کا کہلاتا تھا۔ جس دُکاندار سے میں وہ تیل خریدتا تھا وہ باریش، عاشقِ رسول اور اچّھا آدَمی تھا، اُس سےمیری دُعا سَلام اچّھی ہوگئی تھی۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ ’’کیا یہ تیل 100 فیصد خالص ہے؟ اِس میں بالکُل کچھ نہیں مِلا ہوا؟‘‘ تو اُس نے مجھے ایک تحریر دکھائی جو اُسی تیل کے ساتھ باہر سےآئی تھی، اُس پر لکھا تھا کہ ’’اِس میں دو فیصد عَرق(2 Percent Essence) ڈالا گیا ہے تاکہ تیل کا معیار (Quality) برقرار رہے۔“ اِس کے بعد جب میں وہ تیل بیچتا تھا تو خریدنے والے کو بتادیتا تھا کہ ’’اِس میں اِتنا Essence ڈَلا ہوا ہے۔‘‘
مجھے ڈر لگتا تھا کہ کہیں خالص بول کر آخرت میں پھنس نہ جاؤں، کیونکہ وہ 100 فیصد خالص نہیں تھا۔ اگر آپ بھی اِس طرح گاہَک کو بتادیں گے تو وہ چىز چھوڑے گا نہىں، بلکہ اىک لىنى ہوگى تو دو لے کر جائے گا اور اُس کا دِل آجائے گا کہ ’’ اِس کا کاروبار کتنا کھرا ہے کہ اِس طرح بول رہا ہے۔‘‘ لوگ سمجھتے ہىں کہ سچ بتانے سے گاہَک ٹُوٹ جائىں گے یا سچّائى کا زَمانہ نہىں ہے، حالانکہ ىہ اُن کى بھول ہے، سچّائى کا زمانہ کل بھى تھا، آج بھى ہے اور آئندہ بھى رہے گا۔ سچّائى کا زَمانہ ختم نہىں ہوتا اور نہ ہی سچّے ختم ہوتے ہىں۔ اگر ہم سچّے بن جائىں گے تو اِنْ شَآءَ اللہ مدىنہ مدىنہ ہوجائے گا۔ اىسا کاروبار چمکے گا کہ سنبھالا نہىں جائے گا۔([ii])
کام کاج کے ساتھ ساتھ نماز کا لحاظ
امیرِ اہلِ سنّت ایک کارخانے پر کام کرتے تھے اور پھر وہیں سے سامان لے کر سائیکل پہ لاد کر دوسری جگہوں پہ سپلائی بھی کرتے تھے، نیز ساتھ ہی ان دنوں نورمسجد(کاغذی بازار، میٹھادر، کراچی) میں امامت بھی فرماتے تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ نماز کے لئے وقت پر پہنچوں اس لئے میں کچھ منٹ جلدی نکل جاتا تھا اور پھر نور مسجد میں نماز پڑھاتا تھا ۔([iii])
کام کے ساتھ ساتھ نماز کی ادائیگی اور پھر نماز کا اکرام بھی مدّنظر رکھنا، یہ بھی امیرِ اہلِ سنّت کی سیرت کا کمال حصہ ہے چنانچہ فرماتے ہیں کہ میں نے عام طور پر کام کے لئے الگ کپڑے رکھے ہوئے تھے، کام سے فارغ ہو کر نماز کے لئے صاف کپڑے پہن کر نکلتا کیونکہ کارخانے میں کپڑے میلے ہوجاتے تھے اور کام والے میلے کپڑوں کے ساتھ نماز پڑھنا مکروہِ تنزیہی یعنی ناپسندیدہ ہے۔ ہم دنیا میں کسی معزز شخص کے پاس جاتے ہوئے لباس کے معاملے میں کس قدر احتیاط سے کام لیتے ہیں کہ وہ صاف ستھرا اور خوبصورت ہو تو پھر اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضر ہوتے وقت ہمارا لباس کیسا ہونا چاہئے اس کا اندازہ آپ خود کر سکتے ہیں لہٰذا صاف ستھرا لباس ہو، خوشبو لگی ہوئی ہو اور مُعطّر ہو کر ادب کے ساتھ بارگاہِ خداوندی میں حاضر ہوں ۔([iv])
عطّاؔر کیسے بنا؟ اور عطر کا کاروبار
امیرِ اہلِ سنّت کو عطّاؔر کیوں کہا جاتا ہے اس کا پسِ منظر کچھ یوں ہے کہ آپ عطر کا کاروبار کرتے تھے اس لئے خود ہی اپنا تخلص عطّاؔر رکھ لیا۔([v])
کاروبار میں بھی مقدسات کا ادب
عطر کے کام کے دوران کسی نے اگربتی کے کاروبار کا ذہن دیا تو آپ نے ”قادری اگر بتی “ کے نام سے اپنی برانڈ کا آغاز کیا اور ”قادری اگربتی“پرنٹڈپیکٹ (Printed Packet) بنوائے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں نے قادری اگربتی کا ایک کچلا ہوا پیکٹ زمین پر پڑا ہوا دیکھا تو ڈر گیا کہ کہیں غوث پاک نے پکڑ لیا کہ تجھے اپنا کاروبار چمکانے کے لیے میرا ہی نام ملا تھا؟ تو نے چند سکّوں کی خاطر میرا نام زمین پر ڈال دیا ؟ تو میں کیا جواب دوں گا ۔ میں یہ دیکھ کر بہت ڈر گیا اور طے کرلیا کہ اب مجھے قادری اگربتی نہیں چلانی۔ چنانچہ میں نے ”قادری اگربتی“ نام بدل کر ”قومی اگربتی “ کردیا ۔([vi])
یہاں کاروباری حضرات کے لئے بھی سبق ہے کہ وہ اپنی پروڈکٹس،اپنی دکان یا بیکری کے ڈبو اور شاپرز یا چیزوں کے ریپرز پر مقدس نام یا مقدس تصاویر ہرگز نہ لکھوائیں یا بنوائیں، بہتر یہ ہے کہ پہچان کے لئے کوئی علامت (Symbol) استعمال کریں کہ اس میں بے ادبی کا امکان نہیں ہے اور اگر نام لکھوانا ضروری ہی ہو تو کم از کم مقدس نام سے گریز کریں کہ بےادب بےنصیب با ادب با نصیب۔
محفوظ سدا رکھنا شہا! بے ادبوں سے
اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ دینی کاموں کی تحریرات، المدینۃ العلمیہ فیصل آباد
Comments