
امیر اہل سنت اور فکرِ نماز
*مولانا ابورجب محمد آصف عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ 2025
شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ محمد الیاس عطّاؔر قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کا ایک نمایاں وصف”نماز کی ادائیگی کی فکر“ بھی ہے۔ اس حوالے سے آپ کی کتابِ زندگی بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے جنہیں سُن کر انسان دَنگ رَہ جاتا ہے کہ نماز کی ادائیگی کی فکر اس طرح بھی کی جاسکتی ہے، مثلاً *بہت پہلے حیدرآباد پھر کچھ سالوں بعد کراچی میں امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کا آپریشن ہوا تو وقت وہ طے کیا گیا کہ آپریشن کی وجہ سے کسی نماز کی ادائیگی میں خلل نہ آئے *جلوسِ میلاد میں مختلف انداز سے شر کت کئی دہائیوں سے آپ کا معمول ہے لیکن اس میں بھی یہی فکر دامن گیر رہتی ہے کہ کونسی نماز کہاں ادا کرنے کا موقع مل سکے گا؟ ایک سال تو آپ جان ہتھیلی پر رکھ کر بکتر بند گاڑی میں بیٹھ کر شریک ہوئے اور جب جلوس سے واپس اپنی قیام گاہ آرہے تھے تو عصر کا وقت بہت کم رہ گیا تھا ان حالات میں بھی آپ نے راستے میں اپنا قافلہ رُکواکر باجماعت نماز ادا کرنے کی سعادت پائی *پہلی مرتبہ ہوائی جہاز کا سفر کیا تو دورانِ پرواز نماز کا وقت آگیا، آپ نے عملے کے ایک رُکن کے دل آزار جاہلانہ انداز اور اصرار کے باوجود صبرکیا اور شرعی احکام کے مطابق نماز ادا کرکے ہی دَم لیا۔ سفر کوئی بھی ہو اس کے شیڈول میں نمازوں کی ادائیگی کا معاملہ سرفہرست ہوتا ہے*ایک مرتبہ بیرونِ ملک قیام گاہ کی طرف سفر کے وقت راستہ موسمی حالات کی وجہ سے کلیر(Clear) نہ تھا اور طبی مسائل کی وجہ سے راستے میں استنجا اور وضو کی عملاً گنجائش نہ تھی، آپ کو ایک ہی فکر تھی اور وہ تھی نماز کی ادائیگی کی، بہرحال آپ نے ایک وظیفہ پڑھنا شروع کردیا جس کی برکت سے گاڑی نے جلدی سفر طے کرلیا اور آپ نے قیام گاہ پہنچ کر وقت ختم ہونے سے پہلے پہلے نماز ادا کرلی۔
امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کے حج کے سفروں کے یہ واقعات بھی تاریخ کا حصہ ہیں کہ*ایک سفرِ حج میں مِنٰی میں قربانیاں کرتےہوئے آپ کے کپڑے خون آلود ہوئے، قافلے والوں سے آپ بچھڑ چکے تھے لیکن آپ نے خوب کوشش کرکے کسی طرح پاک احرام حاصل کر لیا اور نماز کا فرض ادا کر کے سکون پایا *اسی طرح مِنٰی میں آگ لگی تو لوگ جان مال بچانے کی فکر میں اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے لیکن آپ پر ادائے نماز کی فکر غالب تھی *طوافُ الزّیارہ کے بعد مِنٰی میں قیام کے دوران جب اندیشہ ہوا کہ فجرمیں کوئی جگانے والا نہیں ہوگا تو شدید تھکاوٹ کے باوجود رات بیٹھ کر گزار دی۔ ویسے بھی آپ نماز کے معاملے میں اتنے حساس ہیں کہ کئی کئی الارم لگا کر سوتےہیں کہ اگر ایک نہ بجا تو دوسرا بج جائے گااور آنکھ کھل جائے گی پھر چاہے بغیر الارم کے ہی آنکھ کھل جائے *طوافِ رخصت کرنے کے بعد امیرِ اہلِ سنّت اور آپ کا رفیقِ سفر اور کچھ دیگر حجاجِ مدینہ شریف جانےکے لئے بکریاں اُٹھانے والے ایک ٹرک میں سوار ہوئے تو آپ نے ڈرائیور سے ایڈوانس میں ہی نمازِ فجر کی ادائیگی کے لئے ٹرک روکنےکی بات کرلی اور جب دورانِ سفر نماز کا وقت ہوگیا تو ڈرائیور کو آگاہ کرکے ٹرک رکوایا اور دیگر مسافروں کے ہمراہ نماز فجر وقت کے اندر اندر ادا کرنے کی سعادت پائی *طویل عرصہ گزرا کہ مدینے شریف میں مقامی پولیس (شُرطوں) نے غلط فہمی کی بنا پر آپ کو ایک کوٹھڑی میں بند کرنا چاہا لیکن اس وقت بھی آپ کوطہارت، وُضو اور نمازِ فجر کی ادائیگی کی فکر دامن گیر تھی، خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ بے کسی میں آپ کے منہ سے میمنی زبان کے یہ لفظ نکلے ”یَارسولَ اللہ! کِڈا پھسائی ویو یعنی یَارسولَ اللہ کہاں پھنس گیا!“ یہ سُن کر پولیس والے کی ہنسی نکل گئی اور اس نے آپ کو چھوڑ دیا۔
جب ڈرائیور نے نمازکےلئے بس نہ روکی
1980ء کے سفرِ مدینہ کی آخری رات میں امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ مدینۂ پاک سے جدّہ شریف کی طرف بذریعہ بس روانہ ہوئے۔ جدّہ شریف سے کچھ ہی فاصلے پر نظر آسمان پر پڑی تو محسوس ہوا کہ فجر کا وقت شروع ہوگیا ہے۔ ہجرِ مدینہ کا صدمہ اپنی جگہ تھا اور فرض نماز کا جذبہ بھی سلامت تھا، آپ اُٹھے اور ”نماز کا وقت ہوگیا ہے!“، ”نماز کا وقت ہوگیا ہے!“کی صدالگانا شروع کی۔ نمازِ فجر کےلئے لگائی گئی صداؤں پر کسی نے خاطر خواہ تعاون نہ کیا، آپ ڈرائیور کے پاس پہنچے اورکہا: نمازِ فجر کا وقت ہوگیا ہے گاڑی روک دیں،مگر اس نے سُنی اَن سُنی کردی۔آپ کا دل بہت اَفْسُرْدہ ہوا اور اپنی سیٹ پر آ کر بیٹھ گئے، کچھ دیر بعد دوبارہ آسمان کی جانب دیکھا تو اُجالا بڑھ چکا تھا۔ ایک بار ہِمّت کی اور حُجَّاج سے بھری بس کو نماز پڑھنے کی دعوت دی مگر کسی نے کوئی خاص توجہ نہ دی۔ دوبارہ ڈرائیور کے پاس پہنچے کہ سورج نکلنے ہی والا ہے گاڑی روک دو مگر اس نےپھر کوئی لفٹ نہ کرائی۔اب بے بسی کا عالَم تھاکہ نہ ڈرائیور گاڑی روکتا ہے اور نہ کوئی ساتھ بڑھ کر نماز کے لئے اترتا ہے۔ آپ کی کیفیت یہ تھی کہ روئیں تو رویا نہ جائے، تڑپیں تو تڑپا نہ جائے۔ سوچنے لگے کہ کیا یہیں بیٹھے بیٹھے میری فجر کی نماز قضا ہوجائے گی؟ سفرِ حج کی طرح اس موقع پر بھی ایمرجنسی میں وُضو کےلئے پانی کی بوتل آپ کے ساتھ تھی مگر بس میں وضو کیسے کیا جائے؟ خیر جیسے تیسے تَیَمُّم کرکےسیٹ پر بیٹھے بیٹھے ہی نماز اداکی، اس کے علاوہ اور کیا بھی کیا جاسکتا تھا؟کچھ ہی دیر میں جدّہ شریف آگیا۔ جیسے ہی گاڑی رُکی، امیرِ اہلِ سنّت جلدی سے اُترے،اپنا سامان فٹ پاتھ پر ڈالا اور پانی کی بوتل نکال کر وضو کرکے نمازِ فجر ادا کی اورسلام پھیرتے ہی گھڑی سے دیکھ کر وقت نوٹ کرلیا۔اُن دِنوں آج کی طرح نماز کے اوقات کی کوئی ایپ یا نیٹ سسٹم تو تھا نہیں،بعد میں جب کیلنڈر سے فجر کا وقت ملایاتوظاہرہوگیا کہ اَلحمدُ لِلّٰہ! آپ کی نمازِ فجر وقت میں ہی ادا ہوئی تھی۔اس نعمت کی خوشی بھی دِیدنی یعنی (دیکھنے سے تعلق رکھتی) تھی۔ امیرِ اہلِ سنّت نمازِ فجر کی فکر میں جلدی جلدی گاڑی سے اتر تو گئے لیکن اُتر نے کے بعد پتا چلا کہ بس کا اصل اسٹاپ تو ابھی دور تھا اور آپ اس سے پہلے ہی کسی دوسری جگہ اتر گئے تھے۔ اُس دور میں موبائل فون تو نہیں ہوتے تھے لیکن آپ کے پاس دوستوں کا نمبر تھا چنانچہ اس نمبر کے ذریعے کسی نہ کسی طرح ڈھونڈتے ہوئے اُن کے مکان تک پہنچ گئے اور پھر بذریعہ ہوائی جہاز کراچی پہنچ گئے۔
یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہے عطا کرتا ہے،اللہ پاک ہمیں بھی نماز کی ادائیگی کا ایسا جذبہ نصیب کرے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* استاذ المدرسین، مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی
Comments