Book Name:Yaqeen Ki Barkatain

سارا ماجرا دیکھ رہا تھا۔ جب اس نے اللہ پاک کی قُدْرت کا یہ نظّارہ دیکھا تو اس نے پکّی نِیّت کر لی کہ جب اللہ پاک اس لومڑی کو دے سکتا ہے تو میں تو اَشْرَفُ المخلوقات ہوں، مجھے بھی عطا فرما سکتاہے۔ چنانچہ وہ ایک مسجد میں جا کر بیٹھ گیا اور اللہ، اللہ کرنے لگا۔ ایک دِن گزرا، کھانا نہ مِلا، دوسرا دِن گزرا، پِھر بھی کھانا نہ مِلا، تیسرا دِن بھی گزر گیا، کھانے کا کوئی انتظام نہ ہوا، اب تو بُھوک سے اس کا حال بےحال ہو چکا تھا، اس نے تڑپ کر اللہ پاک کی بارگاہ میں فریاد کی تو غیب سے آواز آئی: اے شخص! تُو نے لومڑی کو تو دیکھا، کیا شیر کو نہ دیکھا؟  کیا یہ اچھا نہیں کہ تُو شیر کی طرح بن، اپنے لئے بھی محنت کر اور دوسروں کو بھی کھلایا کر۔ اب اس شخص کے ہوش ٹھکانےآئے اور وہ محنت مزدوری کرنے میں مَصْرُوف ہو گیا۔ ([1])

بہر حال! پیارے اسلامی بھائیو! مقصد یہ ہے کہ اللہ پاک کی عطا پر، اس کی عنایتوں پر، اس کی رحمتوں پر یقین ضرور رکھنا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم نے محنت چھوڑ دینی ہے۔ جو قوم محنت چھوڑ دیتی ہے، اللہ پاک کی رحمت ان کی طرف مُتَوَجِّہ نہیں ہوتی۔ لہٰذا محنت بھی کرتے رہیں اور اللہ پاک پر پکّا یقین بھی ضرور رکھیں۔  

تم ہی غالِب ہو....!!

پیارے اسلامی بھائیو!سچ کہتا ہوں:اگر ہمارا یقین پکّا ہو جائے تَو ہر میدان میں کامیابی ہمارے قدم چُومے گی ، ہم اِس دنیا میں بھی کامیاب ہو جائیں گے اور آخرت بھی سنور جائے گی۔ اللہ پاک قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

  وَ  اَنْتُمُ  الْاَعْلَوْنَ  اِنْ  كُنْتُمْ  مُّؤْمِنِیْنَ(۱۳۹) (پارہ:4، آل عمران:139)

ترجمہ ٔکنزُالعِرفان: اگر تم ایمان والے ہو تو تم ہی غالب آؤ گے۔


 

 



[1]...کلیاتِ سعدی، بوستان، باب دوم در اِحسان، صفحہ:200ملخصاً۔