Book Name:Yaqeen Ki Barkatain

نے تنِ تنہا کلمۂ حق بلند فرمایا، لوگوں کو نیکی کی دَعوت دینا شروع فرمائی۔

نَمرُود کو یہ سب کیسے بَرداشْت ہو سکتا تھا؟ اِس بَدبَخت نے ایک بڑی آگ جَلانے کا حُکم دیا، چنانچہ کئی دِنوں تک لکڑیاں جمع کی جاتی رہیں، ایک بڑی چاردِیواری بنا دی گئی، ایک بہت بڑی آگ جَلا دی گئی۔کتابوں میں لکھا ہے: یہ اتنی بڑی آگ تھی کہ اس کے اُوپر کئی میٹر اُونچائی تک پرندے اس آگ پر سے گزر نہیں سکتے تھے، کوئی پرندہ گزرتا تو جھلس کر گِر جاتا تھا، اتنی بڑی آگ جلائی گئی، اب مِنجَنِیق (پتھر پھینکنے کی مشین) تیار ہوئی، حضرت ابراہیم عَلَیْہ ِ السَّلام کو مِنجَنِیق میں رکھ کر آگ کی طرف اُچھال دیا گیا...!! ([1])

اب یہاں یقین کا عالَم دیکھئے! صِرْف آگ میں ڈَالنے کی دَھمکیاں نہیں دِی جا رہیں، آگ میں ڈَالنے کا صِرْف دِن اور وقت مُقرَّر نہیں کیا گیا، ایسا نہیں ہے کہ ابھی آگ میں ڈَالنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں بلکہ آگ کی طرف اُچھال دیا گیا ہے۔

بِلا تَمْثِیل (یعنی صرف سمجھانے کے لئے  ) عرض کروں؛ کسی کو قید کر لیا جائے تو اُمِّید ہوتی ہے کہ شاید بچنے کا کوئی رَسْتہ نکل آئے، کسی کو سزا سُنا دِی جائے، تب بھی اُمِّید ہوتی ہے کہ شاید رِہائی کی کوئی صُورت نکل آئے، یہاں یہ مُعَاملہ نہیں ہے، حضرت ابراہیم عَلَیْہ ِالسَّلام کو آگ کی طرف اُچھال دیا گیا ہے یعنی اُمِّیدوں کا وقت خَتم ہو چُکا ہے، اب وہ لمحہ ہے کہ عَام لوگوں کی اس لمحے ساری اُمِّید دَم توڑ چکی ہوتی ہے مگر قربان جائیے! یہ حضرت ابراہیم عَلَیْہ ِ السَّلام ہیں، یہ بےمثال اِیمان والی ہستی ہیں، باکمال یقین والی شخصیت ہیں۔ روایات میں لکھا ہے: جب آپ عَلَیْہ ِالسَّلام کو آگ کی طرف اُچھالا گیا، اب حضرت جبریلِ امین عَلَیْہ ِالسَّلام حاضِر ہوئے، عرض کیا: اے ابراہیم عَلَیْہ ِالسَّلام ! کوئی حَاجت ہو تو فرمائیے! فرمایا: حَاجت تو ہے مگر


 

 



[1]...قرطبی، پارہ:17، سورۃ الانبیا، زیرِ آیت:68، جلد:6، صفحہ:146بتصرف۔