Book Name:Muallim e Kainat
پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں بھی دوسروں کو سمجھاتے ہوئے یہ طریقہ اختیار کرنا چاہیئے! *بیان کریں*دَرْس دیں*کسی کو انفرادی طَور پر سمجھا رہے ہوں*گھر میں بچوں کی تربیت کر رہے ہوں*پڑوسی کو سمجھا رہے ہوں*چھوٹے بھائیوں کو سمجھا رہے ہوں تو چاہئے کہ ایسا پیار بھرا انداز اختیار کریں، اتنی نرمی اور محبّت کے ساتھ سمجھائیں کہ سامنے والا ہمیں اپنا خیر خواہ مان لے، جب وہ ہمیں اپنا خیر خواہ مان لے گا تو اِنْ شَآءَ اللہُ الْکَرِیْم! ہماری زبان میں اَثَر بھی آجائے گا اور سمجھانے کا مثبت فائدہ بھی مِل جائے گا۔
پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کے پیارے شہزادے(یعنی اولادِ رسول)، بہت ہی ماہِر مُعَلِّم، مفتی، ولیوں کے ولی حُضُور غوث اعظم شیخ عبد القادِر جیلانی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: اگر تم میں سے کسی کا بیٹا غیر مُسْلِموں کے ہاں قیدی ہو تو کیا تم اسے چُھڑانے کی کوشش نہیں کرو گے؟ ایک عارِف (یعنی اللہ پاک کی پہچان رکھنے والا کامِل مسلمان) ایسا ہی ہوتا ہے کہ تمام مخلوق اس کے لئے اَوْلاد کی طرح ہے اور وہ انہیں نفس و شیطان کی قید سے چُھڑانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔([1])
سُبْحٰنَ اللہ! کیا خوب صُورت کلام ہے...!! اس میں اَوَّل تو اَساتَذۂ کرام کے لئے دَرْس ہے، استاد کو چاہئے اپنے شاگرد کے ساتھ نرمی سے پیش آئے، اُسے اپنا بیٹا سمجھے اور جیسے اپنا بیٹا غیر مُسْلِموں کی قید میں ہو اور خطرہ ہو کہ وہ میرے بیٹے کو قتل کر دیں گے، جیسی محنت اپنے بیٹے کو چُھڑانے کے لئے کرے گا، ایسی ہی محنت، لگن اور شوق کے ساتھ اپنے شاگرد کو جہالت کے اندھیروں سے نکالنے کی کوشش کرے۔