Book Name:Rah e Najat
ہی ہونا چاہئے۔ جو محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے فرما دِیا، اب دُنیا اِدھر کی اُدھر ہو جائے، محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کے فرمان سے ہمارا اِیْمان نہیں ہٹنا چاہئے۔
روزِ قیامت اَہْلِ فَتْرت کا حال
انسانوں کا ایک طبقہ ہے، جنہیں اَہْلِ فَتْرت کہتے ہیں۔ اس سے مُراد وہ لوگ ہیں، جن تک کسی نبی عَلَیْہ ِالسَّلام کی تبلیغ نہیں پہنچی۔([1]) جیسا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہ ِالسَّلام کے آسمان پر تشریف لے جانے کے بعد سے حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کی تشریف آوری سے پہلے تک کا زمانہ زمانۂ فَتْرَت کہلاتا ہے اور اس زمانہ کے لوگوں کو اصحابِ فترت کہا جاتا ہے۔([2]) قیامت والے دِن ان لوگوں کا حشر کیسے ہو گا؟ کیا یہ جنّت میں جائیں گے یا جہنّم کے حقدار ہوں گے؟ اس تعلق سے روایات میں ہے: قیامت والے دِن ان لوگوں کو جمع کیا جائے گا، اللہ پاک فرمائے گا: تم سب جہنّم میں چلے جاؤ...!!
یہ حکم سُن کر ان کے دو گروہ ہو جائیں گے، ایک گِرَوہ تو حکم سُنتے ہی جہنّم کی طرف دوڑ پڑے گا، دوسرا گِرَوہ اللہ پاک کے حکم کے مقابلے میں عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے کہے گا: اے اللہ پاک! ہم کس جُرْم میں جہنّم میں جائیں، ہم تک تو تیرا دِین پہنچا ہی نہیں۔
اب وہ لوگ جو حکم سنتے ہی جہنّم کی طرف دوڑ پڑیں گے، انہیں واپس بُلا لیا جائے گا، کہا جائے گا: جیسے آج تم نے حکم مان لیا، یُونہی دُنیا میں تم تک دِین پہنچتا تو تُم مان لیتے۔ لہٰذا تم جنّت کے حق دار ہو۔ دوسرے لوگ جو اللہ پاک کے حکم کے مقابلے میں اپنی منفی عقل کے گھوڑے دوڑائیں گے، ان سے فرمایا جائے گا: تم نے جیسے آج حکم نہیں مانا، دُنیا میں دِین