Book Name:Shoq e Ilm e Hadees
ورنہ میں آپ کو سزا دُوں گا۔
اب حضرت فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عنہ کا جلال تو بڑا مشہور ہے، حضرت ابوموسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ عنہ سَہْم گئے۔ چہرے پر زردی آ گئی۔ جلدی سے مسجد میں پہنچے، وہاں پر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم عِلْمِ دِین کا حلقہ لگائے بیٹھے تھے۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ یُوں کر کے حدیثِ پاک ہے، کیا تم میں سے کسی نے مَحْبُوبِ ذیشان صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کی زبانِ پاک سے سُنی ہے؟ وہاں بیٹھے سب صحابہ نے کہا: ہم سب نے سُنی ہے۔ چنانچہ ان میں سے ایک صحابی رَضِیَ اللہُ عنہ آپ کے ساتھ آئے، آپ کے حق میں گواہی دی کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ عنہ جو فرما رہے ہیں، یہ واقعی حدیث ہے۔([1]) ایک روایت میں ہے: حضرت فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عنہ نے فرمایا: اے ابوموسیٰ! میں آپ پر الزام نہیں لگا رہا (کہ آپ پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کے متعلق جھوٹ بول رہے ہیں مجھے معلوم تھا کہ آپ سچّے ہیں)لیکن (میں نے آپ سے گواہ اس لئے مانگے تاکہ لوگ حدیث بیان کرنے میں احتیاط سے کام لیا کریں کیونکہ ) حدیث رسول کو بیان کرنے کا معاملہ بڑا اہم ہے۔([2])
پیارے اسلامی بھائیو! یہ ہے حدیثیں سُننے اور سُنانے کا اُصُول...!! حدیث سننی ہے، حدیث سُنانی ہے، اس کے لئے تحقیق کی جائے گی، معتبر ذرائع سے ہی حدیث لی بھی جائے گی اور بیان بھی کی جائے گی۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم سوشل میڈیا وغیرہ کے ذریعے نہیں بلکہ باقاعدہ عاشقانِ رسول عُلمائے کرام کی خِدْمت میں حاضِر ہو کر، حدیثِ پاک کی کِتابوں کے ذریعے سے باقاعِدَہ حدیثیں سیکھا کریں، آج کل سوشل میڈیا پر احادیث