Book Name:Qayamat Ki Nishaniyan
کہا: اورنگ زیب! تم نے جو وہ دَوَنِّی دِی تھی، اس میں بڑی برکت ہوئی، میں نے اسے کاروبار میں لگایا تو دِنوں میں بہت منافع مِلا اور دیکھتے ہی دیکھتے میں امیر ہو گیا۔
اب بادشاہ سلامت مُعَاملہ سمجھ چکے تھے۔ عرض کیا: اُستادِ محترم! وہ دَوَنِّی کیسی تھی، اس کاراز بھی بتا دوں؟ فرمایا: ضرور بتاؤ! بادشاہ سلامت نے فورًا ایک سپاہی کو بھیجا، کہا: فُلاں محلے میں جو بنیا (غلّے کا تاجِر) رہتا ہے، اسے کہو اپنا فُلاں سال کا کھاتہ لے کر میرے پاس آجائے۔ بنیے (غلّے کے تاجِر)کو حاضِر کر دیا گیا، بادشاہ کا حکم ہوا: کھاتہ کھول کر پڑھنا شروع کرو! اُس نے پڑھنا شروع کیا: اتنی رقم فُلاں کو دی، اتنی رقم فُلاں سے لی، یُوں وہ پڑھتا گیا، بادشاہ سلامت اور ملا جیون رَحمۃُ اللہِ علیہما توجہ سے سُنتے گئے۔ ایک جگہ پہنچ کر بنیا خاموش ہو گیا، حکم ہوا: پڑھتے کیوں نہیں، آگے بھی پڑھو! بنیے (غلّے کے تاجِر)نے ایک آہ بھری اور پڑھا: ایک دَوَنِّی نامعلوم شخص کو دی۔
بادشاہ نے پوچھا: یہ نامعلوم شخص کون ہے؟ بنیے (غلّے کے تاجِر)نے کہا: بادشاہ سلامت! یہ ایک رات کا واقعہ ہے، میں اپنے گھر تھا، بارش برس رہی تھی، اس دوران میرے گھر کی چھت ٹپکنے لگی، اب رات کا وقت، بارش کا موسم، اس وقت مستری مزدور وغیرہ کہاں سے ملنے تھے، بہر حال! میں باہَر نکلا، مجھے ایک شخص مِل گیا، میں سمجھا کہ کوئی مزدور ہی ہو گا، میں نے اسے کہا: بھائی! میرے چھت مرمَّت کر دَو! وہ میرے ساتھ آیا، ساری رات کام کرتا رہا، اس نے بہت اچھا کام کیا، ابھی فارِغ ہی ہوا تھا کہ فجر کی اذان ہو گئی، میں نے اس کا شکریہ ادا کیا، اس وقت میرے پاس ایک دَوَنِّی ہی تھی، میں نے اسے دیتے ہوئے کہا: ابھی یہ لے لو! باقی رقم صبح دُکان پر آ کر لے جانا۔ وہ بھلا شخص تھا، بولا: مجھے یہ دَوَنِّی ہی کافی ہے۔ میں صبح