Siddique e Akbar Ki Jan Nisariyan

Book Name:Siddique e Akbar Ki Jan Nisariyan

حضرت ابوبکر صِدِّیق اور عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عنہما  کی خِدْمت میں سلام کیا، پِھر دُور ہٹ کر بیٹھ گیا، بیٹھے بیٹھے مجھے نیند آگئی، سَو گیا، سَر کی آنکھیں بند ہوئیں، قسمت جاگ گئی، خواب میں پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم  تشریف لائے۔ حضرت ابوبکر صِدِّیق رَضِیَ اللہُ عنہ بھی ساتھ تھے۔ پیارے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: اے ابوبکر! اس کی زبان تمہاری محبّت کی وجہ سے کٹی ہے، تم ہی اسے دُرُست کرو...!! یہ سُن کر حضرت ابوبکر صِدِّیق رَضِیَ اللہُ عنہ آگے بڑھے، میرے ہاتھ سے کٹی ہوئی زبان پکڑی اور مُنہ میں رکھ کر جوڑ دی۔ جب میں نیند سے جاگا تو الحمد للہ! میری زبان صحیح سلامت تھی۔

حضرت شیخ صالِح  رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ  نے یہ واقعہ کسی سے بیان نہ کیا، حاضِری مکمل کر کے چُپ چاپ گھر واپس آ گئے۔ اگلے سال پِھر سعادت مِلی، دوبارہ مدینہ پاک حاضِر ہوئے، اس بار بھی اسی جگہ پر لوگوں کا مجمع لگا ہوا تھا، آپ دوبارہ وہاں پہنچے، اب کی بار آپ کو دیکھ کر ایک نوجوان کھڑا ہوا، ہاتھ سے اِشارہ کیا کہ میرے پیچھے آجاؤ! آپ اس نوجوان کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ وہ نوجوان آپ کو اُسی گھر میں لے گیا اور آپ کی بہت عزّت افزائی کی۔ آپ حیران ہو رہے تھے کہ عجیب بات ہے، پچھلے سال اسی گھر میں میری زبان کاٹ دی گئی تھی، آج اسی گھر میں میری عزّت ہو رہی ہے۔ آپ کے چہرے پر حیرت دیکھی تو وہ نوجوان بولا: کیا بات ہے؟ آپ حیران کیوں ہو رہے ہیں؟ شیخ صالِح  رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ  نے پُورا واقعہ بتایا کہ پچھلے سال اسی گھر میں میری زبان کاٹ دی گئی تھی۔

اس نوجوان نے یہ بات سُنی تو فورًا آپ کے قدموں پر گِر گیا۔ آپ سے مُعَافی مانگی۔ پِھر کہا: وہ بوڑھا جس نے آپ کی زبان کاٹی تھی، وہ میرا باپ تھا، اُسی رات جب ہم سوئے تو اچانک ہم نے چیخنے کی زوردار آواز سُنی، اُٹھ کر دیکھا تو میرا باپ بندر بن چُکا تھا۔ پِھر اس