Book Name:Siddique e Akbar Ki Jan Nisariyan
ابتدائے اِسْلام کی بات ہے، سب جانتے ہیں، اس وقت جو مشکلات تھیں، اِس کے بعد ایسی مشکلات کبھی نہیں ہوئیں، مکّہ پاک پر غیر مسلموں کا غلبہ تھا، دِین کی دعوت میں ہزار طرح کی رکاوٹیں تھیں، جو اِسْلام قبول کر لیتا تھا، ابوجہل، ابولہب وغیرہ اسے ہزار طرح کی تکلیفیں پہنچاتے تھے۔ اس دور کا واقعہ ہے۔ 38 افراد اسلام قبول کر چکے تھے۔ ایک دِن پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم مسجدِ حرام میں تشریف لائے، خطیبِ اَوَّل حضرت ابوبکر صِدِّیق رَضِیَ اللہُ عنہ نے نیکی کی دعوت دینے کے لئے خطبےکا آغاز کیا۔
اب کیا تھا، جتنے غیر مُسْلِم اور مشرک تھے، وہ چاروں طرف سے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے، بدبخت ظالموں نے حضرت صِدِّیق اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ پر اس قدر خُونی وار کئے کہ چہرہ پاک لہولہان ہو گیا، یہاں تک کہ آپ بیہوش ہو گئے۔ آپ کے قبیلے والوں کو خبر ہوئی تو وہ آپ کو وہاں سے اُٹھا لائے، حالت دیکھ کر یہ لگ رہا تھا کہ صِدِّیق اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ زندہ نہ بچ سکیں گے، خیر! گھر پہنچایا گیا، زخموں کی دیکھ بھال شروع ہوئی۔
شام کے وقت جب کچھ اِفَاقہ ہوا، حضرت صِدِّیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ کو ہوش آیا تو سب سے پہلے جو الفاظ آپ کی زبانِ پاک پر جاری ہوئے، وہ یہ تھے: میرے مَحْبُوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کا کیا حال ہے...؟
اللہ! اللہ! پیارے اسلامی بھائیو! یہ کوئی فرضی قصّہ نہیں، ایک عاشِقِ رسول کا سچّا واقعہ ہے، جسم زخموں سے چُور چُور ہے، بڑی مشکل سے جان بچ سکی ہے، ابھی ہوش آیا ہی ہے، حضرت صِدِّیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ کو اپنی بھی فِکْر نہیں ہے، بال بچوں کی بھی فِکْر نہیں