Book Name:Deeni Kitab Padha Kijiye
میں در پیش مشکل حل ہو جاتی تو جوشِ محبّت میں ہاتھ ران پر مار کر کہتے ہیں: اَیْنَ اَبْنَاءِ الْمُلُوْکِ مِنْ هَذِهِ اللَّذَّة ِیعنی یہ جو علم کی لذّت اللہ پاک نے مجھے عطا فرمائی ہے، یہ لذّت شَہْزَادوں کے نصیب میں کہاں ہے۔([1])
علامہ شیخ عبدُالحقّ مُحَدِّث دِہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : مُطَالعَہ کرنا میرا شب وروز کا مشغلہ تھا۔ بچپن ہی سے میرا یہ حال تھا کہ میں نہیں جانتا تھا کہ کھیل کُوْد کیا ہے؟ سیر کیا ہوتی ہے؟ بارہا ایسا ہوا کہ مُطَالعَہ کرتے کرتے آدھی رات ہوگئی تو والد محترم سمجھاتے : بیٹا! کیا کرتے ہو؟ یہ سُنتے ہی میں فورًا لیٹ جاتا،پھر جب کچھ دیر گُزر جاتی تو اُٹھ بیٹھتا اور پھر سے مُطَالعے میں مصروف ہوجاتا۔ بسا اوقات یُوں بھی ہوا کہ دورانِ مُطَالعَہ سر کے بال اور عمامہ وغیرہ چراغ سے چُھْو کر جُھلَسْ جاتے لیکن مُطَالعَہ میں مگن ہونے کی وجہ سے پتانہ چلتا۔([2])
حضرت ابو العُلا حسن بِن احمد ہَمَذانی رحمۃُ اللہِ علیہ کے وصال کے بعد انہیں خواب میں ایک ایسے شہر میں دیکھا گیا جس کی تمام دیواریں کتابوں کی تھیں، یعنی وہ کتابیں اس قدر زیادہ تھیں کہ ان کو شمار کرنا ممکن نہ تھا،آپ رحمۃُ اللہِ علیہ ان کے مُطَالعَہ میں مشغول تھے۔ آپ سے جب یہ پوچھا گیا کہ یہ کتابیں کیسی ہیں؟ تو فرمانے لگے: میں نے اللہ پاک سے سوال کیا کہ میں جس طرح دنیا میں مصروف رہتا تھا، مجھے یہاں بھی اسی طرح کی مشغولیت عطا فرما۔ تو اللہ پاک نے یہ تمام کتابیں مجھے مُطَالعَہ کے لیے عطا فرما دیں۔([3])