اُمورِ خانہ داری کی تربیت

بیٹیوں کی تربیت

امورِ خانہ داری کی تربیت

*اُمّ میلاد عطّاریہ

ماہنامہ اگست 2024

ہر ماں چاہتی ہے کہ زمانے کے مصائب و آلام اس کی اولاد تک نہ پہنچیں، وہ چاہتی ہے کہ اُس کی اولاد کو ہر آسائش ملے بالخصوص بیٹی کے معاملے میں ماں بہت حساس رہتی ہے اور اُسے بہترین تعلیم دلوانے کی کوشش کرتی ہے، اسکول، کالج، مدرسے سے واپسی پر اس کے لئے کھانا تیار رکھتی ہے، کسی کام کو ہاتھ نہیں لگانے دیتی، جب امتحانات کا سلسلہ ہوتا ہے تو ماں کی حساسیت مزید بڑھ جاتی ہے وہ اپنی بیٹی کے کھانے پینے کا جہاں خیال رکھتی ہے وہیں اسے گھر کے ہر کام سے بھی بَری الذمہ کردیتی ہے اپنی بیٹی کی تھکاوٹ کا بہت احساس کرتی ہے۔

يادرکھئے! جہاں ماں اپنی بیٹی کو دنیا کے اُتار چڑھاؤ سکھاتی، معاشرے میں کیسے رہنا ہے لوگوں کو کیسے Face کرنا ہے سکھاتی ہے، وہیں ضرورت اس اَمر کی بھی ہے کہ مائیں اپنی بیٹیوں کو پیار محبت سے اُمورِ خانہ داری بھی سکھاتی رہیں، کیونکہ ہمارے معاشرے میں اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ بیٹی کو تعلیم تو سکھائی جاتی اور تعلیم مکمل ہوتے ہی اس کا اچھا اور مناسب رشتہ اگر آجائے تو بغیر کسی تاخیر کے اس کی شادی کردی جاتی ہے، اور اس دوران اس بیٹی کو اتنا موقع بھی نہیں مل پاتا کہ وہ گھریلو کام سیکھ سکے کیونکہ دورِ طالبِ علمی میں تو اس بیٹی کی تھکاوٹ کا احساس رکھتے ہوئے اور بچی بچی کہتے ہوئے اس کو کھانا پکانے، اُمورِ خانہ داری وغیرہ سے دور رکھا جاتا رہا، مگر پھر جب اس بیٹی کا اچھا رشتہ آتے ہی اس کی شادی کردی گئی تو اب اس بیٹی کو کھانا پکانا، اُمورِ خانہ داری نہ آنے کے سبب سسرال میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اسی لئے ضروری ہے کہ بیٹی کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیتے ہوئے اُسے شادی سے پہلے ہی پیار و محبت سے گھر داری کے کام سکھانا شروع کردیئے جائیں کہ شادی کے بعد اسے کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ ہو، ایسا بھی رویہ نہ رکھا جائے کہ سارا فوکس اُمورِ خانہ داری کی جانب کردیا جائے اوربیٹی کو تعلیم و تربیت سے ہی محروم رکھ دیا جائے اور نہ ہی ایسی سختی کی جائے کہ بیٹی ان اُمورِ خانہ داری سے ہی بےزار ہوجائے اور ان کاموں سے فرار کے راستے ڈھونڈتی رہے، تعلیم بھی دی جائے اس کے لئے وقت بھی دیا جائے اور اسی عمر میں گھریلو کام کاج بھی محبت و حکمتِ عملی سے سکھائے جائیں۔

اپنے گھر کا کام کاج خود کرلینا عورت کے لیے کسی شرم کا باعث نہیں بلکہ گھر کی خوشیوں اور عزت کا نسخہ ہے۔ خود رسولُ ا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مقدس صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہُ عنہا جو کہ خاتونِ جنّت ہیں، ان کا بھی یہی معمول تھا کہ وہ اپنے گھر کا سارا کام کاج خود اپنے ہاتھوں سے کیا کرتی تھیں کنویں سے پانی بھر کر اور اپنی مقدس پیٹھ پر مشک لاد کر پانی لایا کرتی تھیں، خود ہی چکی چلا کر آٹا بھی پیس لیتی تھیں اسی وجہ سے ان کے مبارک ہاتھوں میں کبھی کبھی چھالے پڑ جاتے تھے اسی طرح مسلمانوں کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ کی صاحبزادی حضرت اسماء رضی اللہُ عنہا کے متعلق بھی روایت ہے کہ وہ اپنے غریب شوہر حضرت زبیر رضی اللہُ عنہ کے یہاں اپنے گھر کا سارا کام کاج اپنے ہاتھوں سے کرلیا کرتی تھیں یہاں تک کہ اونٹ کو کھلانے کے لئے باغوں میں سے کھجوروں کی گٹھلیاں چُن چُن کر اپنے سر پر لاتی تھیں اور گھوڑے کے لئے گھاس چارہ بھی لاتی تھیں۔ (جنتی زیور،ص60)

لڑکیوں کو اُمورِ خانہ داری میں یہ یہ چیزیں سکھانی چاہئیں :

سوئٹر بُننا، اونی اور سوتی موزے بنانا، ٹوپیاں اور کپڑے سینا، ہاتھ سے ٹانکا لگانا وغیرہ۔

کھانے میں: روٹی، ہر قسم کی دال، سبزیاں، مرغی، گوشت، کلیجی، قیمہ،پکوڑے، سموسے، پلاؤ وغیرہ عام روٹین کے لئے بنانا آتا ہو، اور جب خصوصیت کے ساتھ کچھ بنانا ہو یا کسی کی دعوت ہوتو اس کے لئے بھی مختلف ڈشز بنانا آتی ہوں جیسا کہ بریانی، قورمہ، کڑاہی، کوفتے، اور دیگر مروجہ کھانے۔ اور ایسے کھانے جو کسی خاندان میں ذوق و شوق سے کھائے جاتے ہوں جیسا کہ پاکستان میں پنجابی زبان سے تعلق رکھنے والوں میں ساگ، مکئی کی روٹی پسند کی جاتی ہے اور شوق سے کھائی جاتی ہے، اسی طرح دیگر زبانوں سے تعلق رکھنے والیاں اپنے خاندان کی نوعیت کے حساب سے کھانے پکانے کے معاملات پر غور کر سکتی ہیں۔ ایسے ہی اچار، چٹنی مربے وغیرہ بنا نا آتا ہو کہ یہ ہر گھر میں ہی شوق سے کھائے جاتے ہیں۔

مشروبات میں: موسم کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مشروبات بنانے آتے ہوں۔ جیسا کہ گرمیوں میں لسّی، گڑ، ستّو کا شربت، لیموں پانی اور آم کیلے وغیرہ کا شیک کافی زیادہ استعمال کیا جاتا ہے ۔

بیماری میں : گھر میں اچانک کوئی حادثہ پیش آ جائے جیسا کہ گرم تیل سے، آگ سے جل جانا وغیرہ، کسی چیز سے جسم کا کوئی حصّہ کٹ جائے اور خون بہے، ہاتھ، پاؤں کمر وغیرہ میں موچ آجائے، کوئی بچہ یا بڑا گِر جائے، تو فرسٹ ایڈ کیسے دیا جائے یہ طریقے بھی ماں کو اپنی بیٹی کو لازمی سکھانے چاہئیں۔

اسی طرح گھر کے تمام برتنوں کو دھو مانجھ کر کسی الماری یا طاق پر الٹا کرکے رکھ دینا اور پھر دوبارہ اس برتن کو استعمال کرنا ہو تو پھر اس برتن کو بغیر دھوئے استعمال نہ کرنا۔ روزانہ جھاڑو پوچا کرنے کے علاوہ  ہفتہ یا دس دنوں میں ایک دن گھر کی مکمل صفائی کے لئے مقرر کرنا کہ اسی دن روٹین کے کاموں کے ساتھ ساتھ پورے مکان کی صفائی کرے۔

لڑکیاں ان کاموں اور ہنروں کو اگر سلیقے سے سیکھ لیں تو اِن شآءَ اللہ امو رخانہ داری کے حوالے سےوہ پریشان نہ ہوں گی۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*(نگران عالمی مجلس مشاورت (دعوتِ اسلامی) اسلامی بہن)


Share