بچّوں کی پارٹی

ایک واقعہ ایک معجزہ

بچّوں کی پارٹی

*مولانا ارشد اسلم عطاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ اکتوبر 2022

آج اُمِّ حبیبہ بہت خوش تھی ، کافی دنوں بعد اس کی کزن ہانیہ اور حفصہ آئی تھیں ، ہانیہ نے کہا : آج ہم اتنے دنوں بعد ملے ہیں باتیں بھی بہت کرلیں ، اب اورکیا کریں ؟  حفصہ بولی : شام کو پارٹی کرتے ہیں ، ہانیہ اور اُمِّ حبیبہ فوراً بولیں : ہاں یہ آئیڈیا ٹھیک ہے۔ حفصہ نے  ” مگر “  کہااور خاموشی ہوگئی ، اُمِّ حبیبہ نے کہا : اب آگے بھی تو کچھ بولو ، حفصہ نے پریشان انداز میں کہا : پیسے تو ہیں نہیں پھرچیزیں کہاں سے آئیں گی۔اُمِّ حبیبہ نے ہنستے ہوئے کہا : ٹینشن نہیں لو ، ابوجان سے پارٹی کے لئے پیسے لے لیں گے۔حفصہ یہ سُن کر خوش ہوگئی۔ اُمِّ حبیبہ جگہ سے اٹھی اورکہا : آؤ ہم چیزوں کی لسٹ بناتے ہیں ۔

بچّے پارٹی کررہے تھے اورمزے مزے کی چیزیں کھا رہے تھے ، داداجان ان کے پاس آئےاور کہا : مجھے بھی چیزیں کھلاؤ ، صہیب نے کہا : دادا جان ! یہ بچّوں کی پارٹی ہے اور آپ تو بڑے ہیں ، یہ سُن کر داداجان کے ساتھ بچے بھی ہنسنے لگ گئے۔ دادا جان نے بچّوں سے کہا : مِل جُل کر کھیلنا ، کھانا اور رہنا اچھی بات ہوتی ہے۔

خُبیب نے کہا : داداجان ! آج ہانیہ اورحفصہ آئی ہیں اور ٹائم بھی اچھا ہے ، آپ ہمیں کوئی معجزہ ہی سنادیجئے۔ ہانیہ اور حفصہ کہنے لگیں : جی داداجان ! خُبیب بھائی نے صحیح وقت پر کہا ہے ورنہ ہم خود ہی آپ سے کہنے والے تھے۔داداجان نے کہا : اچھا ! مجھے سوچنے دو۔ کچھ دیر بعدجیسے ہی داداجان کو معجزہ یاد آیا توکہا :

ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے صحابہ کے ساتھ مدینہ شریف سے تبوک کی طرف جارہے تھے ، اُس وقت لوگ اونٹوں ، گھوڑوں وغیرہ پر سفر کرتے تھے اور تبوک جانے میں 1مہینا لگتا تھا۔ اتنا لمبا سفر تھا ، لوگوں نے گھر سے کھانے پینے کی چیزیں پیک کیں اوراپنے ساتھ رکھ لیں تاکہ راستے میں کھانے کی کوئی ٹینشن نہ ہو۔

کچھ دن بعد لوگوں کے پاس کھانا ختم ہوگیا۔ بچّوں نے افسوس کرتے ہوئے کہا : داداجان ! کھانا ختم ہونا تو ٹینشن والی بات ہے۔

 اُمِّ حبیبہ بولی : آپ نے ہمیں بتایا تھا کہ اس وقت راستے میں کوئی ہوٹل یا ریسٹورنٹ بھی نہیں ہوتے تھے ، پھر ان لوگوں نے کیا کھایا ہوگا اور اپنی بھوک کیسے ختم کی ہوگی ؟  دادا جان نے اچھا سوال کرنے پر اُمِّ حبیبہ کو شاباشی دی اور کہا : اب سنو !

جب انہیں بہت بھوک لگی توہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس آئےاورکہا : ہم اونٹ ذبح کرکےکھانا چاہتے ہیں ، آپ اجازت دیدیجئے ، ہمارے پیارے نبی نے اجازت دیدی۔ دادا جان جیسے ہی خاموش ہوئے خبیب نے کہا : پھر انہوں نے کتنے اونٹ ذبح کئے ؟  دادا جان پہلے تو مسکرائے اور پھر ہنستے ہوئے جواب دیا : ایک بھی نہیں ، اُمِّ حبیبہ نے حیرانی سے پوچھا : تو پھر انہوں نے کھانا کیا کھایا ؟  دادا جان نے کہا : ہوا یوں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہمارے نبی کے پاس آئے اور بہت ادب اور احترام سے کہا : یارسولَ اللہ ! اگر لوگ اونٹ ذبح کرکرکے کھائیں گے تو سواریاں کم پڑجائیں گی ، حضرت عمر نے مشورہ دیتے ہوئے کہا : آپ لوگوں سے بچا ہوا کھانا منگوالیجئے ، پھر اللہ پاک سے دعا کیجئے ، اللہ پاک ضرور اس کھانے میں برکت ڈال دے گا۔ یہ کہہ کر دادا جان نے وقفہ کیا اور کہنے لگے : ہمارے پیارے نبی اپنے صحابیوں کا مشورہ مانتے تھے ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بھی بات مانی اور لوگوں سے ان کا بچاہوا کھانا منگوایا۔

اب لوگ اپنا بچا ہوا کھانا لےکر آنے لگے ، کوئی روٹی کا ٹکڑا لےکر آیا ، تو کوئی ہاتھ میں تھوڑی سی کھجور ، اس طرح دستر خوان پر صرف تھوڑاساکھانا جمع ہوا ، مطلب ایک ٹائم کا کھانا بھی پورا جمع نہیں ہوا تھا۔ہمارے پیارے نبی نے اس تھوڑے سے کھانے پر دعا کی اور لوگوں سے فرمایا : اپنے اپنے برتن بھر لو ۔

داداجان کی بات سن کر ہانیہ حیران ہوئی اور سر کُھجاتے ہوئے پوچھا : داداجان ! جب کھانا تھوڑاسا ہی ہے پھر سب لوگ اپنے اپنے برتن کیسے بھریں گے ؟ داداجان کے بولنےسے پہلے ہی صہیب نے خوش ہوکر کہا : ہانیہ آپی ! یہی تو ہمارے نبی کا معجزہ اورکمال ہوتا ہے ، ہم نے تو ایسے معجزے بہت سارے سنے ہیں۔صہیب کی بات سُن کر ہانیہ اور حفصہ کی دل چسپی اور بڑھ گئی۔ داداجان بولے : اب آگے سنو !

ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ جتنے بھی لوگ تھے ، سب نے اپنے اپنے برتن کھانے سے بھرلئے ، ایک برتن بھی خالی نہیں بچا۔پھر سب لوگوں نے خوب پیٹ بھر کر کھانا بھی کھایا۔ اس کے بعد بھی  کچھ کھانا بچ گیا تھا۔  ( مسلم ، ص42 ، حدیث : 139 )

دادا جان نے بتایا : یہ تھا ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا معجزہ کہ  ( 1 ) تھوڑا سا کھانا سب لوگوں کو پورا ہوگیا  ( 2 ) اس کے علاوہ جتنے بھی لوگ تھے سب نے اپنے برتنوں کو بھی کھانے سے بھرلیا۔

صہیب نے خوش ہوکر کہا : دادا جان ! ایک اور معجزہ سنائیے ، دادا جان نے صہیب کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھا اور بولے : میرے خیال سے آج کے لئے اتنا ہی کافی ہے باقی پھر کبھی۔ دادا جان کھڑے ہوئے اور واپس اپنے کمرے میں چلے گئے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، شعبہ بچوں کی دنیا ، المدینۃ العلمیہ   اسلامک ریسرچ سینٹر   ، کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code