ظاہری حیاتِ مبارکہ کے آخری ایام

باتیں میرے حضور کی

ظاہری حیاتِ مبارکہ کے آخری ایّام

*مولانا اعجاز نواز عطاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ اکتوبر 2022

اللہ پاک نے مختلف انبیائے کرام کو دنیا میں لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا اور آخر میں حضور نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو مبعوث فرمایا ، جب دِینِ اسلام مکمل ہوچکااور دنیا میں آپ کی تشریف آوری کا مقصد پورا ہوچکا تو وعدۂ الٰہیہ اِنَّکَ مَیِّتٌبےشک تمہیں انتقال فرمانا ہے (  یعنی وِصالِ ظاہری )  کا وقت آگیا۔

 وِصالِ ظاہری سے متعلق3 غیبی خبریں : حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنے وِصالِ ظاہری سے متعلق پہلے ہی غیبی خبر دے دی تھی : ( 1 )  حجۃ الوداع کے موقع پر اِرشاد فرمایا :  ” اِس سال کے بعد میں تم سے ملاقات نہ کرسکوں گا۔ “  [1] ( 2 ) 11ہجری ماہِ صفر کے آخر میں جنّتُ البقیع تشریف لائے تو اِرشاد فرمایا :  ” مجھے دنیا کے خزانے عطا کئے گئے اور اِس دنیا میں ہمیشہ رہنا اور جنّت عطا کی گئی ، پھرمجھے اِن میں اوراپنے رب سے ملاقات اور جنّت کا اختیار دیا گیا تو میں نے اللہ پاک کی ملاقات اور جنّت کواختیارکرلیا۔ “   [2]  ( 3 ) نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنے مرضِ وِصال میں سیدۂ کائنات رضی اللہ عنہا کوخود اپنے وِصال کی خبر دی کہ اِسی مرض میں میرا وِصالِ ظاہری ہوجائے گا۔  [3]

مرضِ وفات کی اِبتدا ، مقام اورکل دورانیہ : بیماری کی اِبتدا اور کل اَیام میں شدید اِختلاف ہے ، ماہِ صفرکے آخری بدھ کے دن جو اِس مہینے کا تیسواں دن تھا طبیعت علیل ہوئی ، معتمد قول کے مطابق بیماری کا آغاز اُمُّ المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھرسے ہوا ، اکثرعلما کا اِتفاق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بیماری کا دورانیہ 13 دن تھا۔  [4]

نمازاورغلاموں سے حُسنِ سلوک کی تلقین : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وِصالِ ظاہری کے وقت حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جوعمومی وصیت فرمائی وہ نماز کی ادائیگی اور غلاموں کے  ( ساتھ حُسنِ سُلوک سے ) متعلق تھی۔  [5]

حضورنے خودغلاموں کو آزاد فرمایا : حضورنبیِّ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مرضِ وِصال میں خود 40غلاموں کو آزاد فرمایا۔[6]

دینار ودِرہم راہِ خدا میں خرچ کردئیے : گھرمیں سات دینار رکھے ہوئے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ ” اِن دیناروں کو لاؤ تاکہ میں انہیں راہِ خدا میں خرچ کردوں۔ “  پھرحضرت علی رضی اللہ عنہ کے ذریعے اُن دیناروں کو تقسیم کردیا ، چھ سات درہم باقی تھے وہ بھی خرچ کردیے اور گھرمیں ذرہ بھربھی سونا یا چاندی نہ چھوڑا۔  [7]

چراغ میں تیل تک نہ تھا : پیرکی شام چراغ میں تیل نہ ہونے کے سبب بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کسی اَنصاری خاتون کو چراغ کے لئے تیل لینے کیلئے بھیجا۔شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتےہیں : سبحان اللہ ابھی ابھی دینارصدقہ کئے اور گھرمیں چراغ کے لئے تیل تک نہیں ، اِس میں اتباع کرنے والوں کے لئے نصیحت ہے کہ گھرمیں کچھ نہیں رکھتے ، جومال ہوتاہے وہ بھی خرچ کردیتے ہیں ، جو خدااوررسول سے محبت کرنے والوں کو اس کی  پیروی کرنی چاہئے۔  [8]

خاتونِ جنّت سے سرگوشی : حضور نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مرضِ وفات میں بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اوراُن کے کان میں کچھ فرمایا تو وہ رونے لگیں ، پھر بلایا اور دوبارہ کچھ فرمایا تو وہ ہنسنے لگیں ، جب پوچھا گیا تو کہا کہ حضور نے مجھ سے فرمایا کہ اُن کا وِصال اِسی بیماری میں ہوجائے گاتو میں روپڑی ، پھر مجھے خبر دی کہ میں سب سے پہلے  ( وفات پاکر ) اُن سے ملوں گی تو میں ہنسنے لگی۔  [9]

حضرت عائشہ کے حجرے میں قیام : مرض کے ایام میں نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دیگراَزواجِ مطہرات سے بقیہ اَیام وعلاج معالجہ کے لئے بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں گزارنے کی اجازت طلب فرمائی ، تمام اُمَّہاتُ المؤمنین نے اجازت دے دی ، 5ربیعُ الاوّل کو آپ بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں تشریف لائے جو اُن کی باری کا دن تھا ، وِصال مبارک تک وہیں 8دن قیام فرمایا۔  [10]

صدیقِ اکبر کا تقرر بحیثیت اِمام : جب تک جسمانی طاقت رہی آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسجدِ نبوی میں نمازیں پڑھاتے رہے ، جب کمزوری بہت زیادہ بڑھ گئی تو آپ نےتین بار اِرشاد فرمایا :  ” ابوبکر کوحکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ “ چنانچہ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے جمعرات کی عشا سے پیر کی نمازِفجر تک 17 نمازیں پڑھائیں۔[11]

خطبہ نبوی اور اُس کے نکات : 8ربیع الاول بروز جمعرات مرضِ وِصال میں نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم منبرکی جانب تشریف لائے ، مرض کے باعث بیٹھ کر خطبہ اِرشاد فرمایا جس کے بعض نکات یہ ہیں :  * اگرمیں اللہ کے سواکسی اورکو اپناخلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن اِن کے ساتھ مجھے اسلامی محبت ہے * ” اللہ نے ایک بندے کو دنیامیں ہمیشہ رہنے ، پھر جنّت اور اپنی ملاقات کا اختیار دیا تو اُس بندےنے اللہ کی ملاقات کو پسند کرلیا۔ “ اِس فرمان کو فقط صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سمجھا  * ابوبکر کے سوا سب لوگوں کی مسجدمیں کھلنے والی کھڑکیوں کو بند کردو  * لوگوں میں سے صحبت اور مال کے بارے میں مجھ پرسب سے بڑھ کر اِحسان کرنے والے ابوبکر ہیں  * اَنصارکے بارے میں تمہیں نیکی کی وصیت کرتا ہوں ، اِن میں سے نیکوکار کوقبول کرواورزیادتی کرنے والے سے درگزر کرو۔[12]

نمازِجنازہ کے بارے میں وصیت : بیماری کے ایام میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے صحابہ کرام کو جنازہ وغیرہ سے متعلق یوں وصیت فرمائی :  ” جب میرا انتقال ہوجائے ، مجھے غسل دینا ، کفن پہنانا ، اِسی گھرمیں میری قبرکے کنارہ پر اِسی چارپائی پر مجھے لٹادینا اور کچھ وقت کے لئے حجرہ سے باہرنکل جانا کیونکہ سب سے پہلے میری نمازِ جنازہ جبریلِ امین ، پھر میکائیل ، پھر اِسرافیل ، پھر ملکُ الموت اپنے لشکروں سمیت پڑھیں گے ، اِس کے بعد میرے اہلِ بیت سے مَرد ، پھر عورتیں ، پھر گروہ درگروہ داخل ہوکر نمازِجنازہ اَدا کرو۔ “ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ہرایک نے الگ الگ نمازاداکی ، کسی نے اِمامت نہ کرائی۔  [13]

سات کنوؤں کے پانی سے غسل : علالت کے دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اِرشاد فرمایا :  ”سات کنوؤں سے پانی کی سات مشکیں لاؤ اور اُن کے منہ نہ کھولے جائیں۔ “  صحابۂ کرام نے وہ پانی پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اُس میں سے کچھ پانی کے ساتھ غسل فرمایا۔  [14]

مسواک کا اِستعمال : اِن ہی دنوں میں حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکر  رضی اللہ عنہما حاضرہوئے تو اُن کے ہاتھ میں سبز مسواک تھی ، حضورنے رغبت فرمائی توحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اُسے نرم کرکے پیش کیا ، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اُسے عادتِ کریمہ سے ہٹ کر زیادہ استعمال فرمایا۔  [15]

آخری دُعائے نبوی : بیماری کے ایام میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کاآخری کلام یہ دعا مبارکہ تھی :  ” اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ وَ اَلْحِقْنِیْ بِالرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی یعنی اے اللہ! مجھے بخش دے ، مجھ پر رحم فرما اور رفیقِ اعلیٰ ( یعنی رب تعالیٰ )  سے مجھے ملادے۔ “   [16]

ملکُ الموت کا حاضِرِ خدمت ہونا : وِصالِ ظاہری سے تین روز قبل حضرت ملکُ الموت  علیہ السّلام  بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور رُوح قبض کرنے کی اجازت طلب کی ، آپ نے اجازت مرحمت فرمائی ، تین دن بعددوبارہ حاضر ہوئے اور رُوح مبارک قبض کرلی ، ملکُ الموت نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے قبل کسی سے رُوح قبض کرنے کی اجازت نہیں مانگی یہ آپ کے خصائص میں سے ہے۔  [17]

حضور کا وِصالِ ظاہری ہوگیا : اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :  ” میں نے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اپنے سینے پرسہارا دیا ہوا تھا ، آپ کا وِصال میری گودمیں ہوا ، اُس روز میری باری تھی اور میرے حجرہ میں آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی رُوح جسدِاطہر سے پرواز کرگئی۔ “  [18]   اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْن

تاریخ وِصال ، سن ، دِن ، وقت ، ٹوٹل عمر : حضور نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا وِصالِ ظاہری پیرکے دن 12ربیعُ الاول کو 63 سال کی عمر میں ہوا۔حضرت عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : حضورنبیِّ اکرم ، نورِمجسم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے  ( بعثتِ نبوی کے بعد )  13سال مکَّۂ مکرَّمہ میں ( اور10سال مدینۂ منورہ میں )  قیام فرمایا اور63 سال کی عُمْر میں وصالِ ظاہری فرمایا۔[19]اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اور تحقیق یہ ہے کہ ( تاریخ وفات ) حقیقۃً بحسبِ رُؤیت  ( چاندکے حساب سے )  مکہ معظمہ ربیعُ الاول شریف کی تیرھویں تھی ، مدینۂ طیبہ میں رؤیت نہ ہوئی  ( چاندنظرنہ آیا )  لہٰذا اُن کے حساب سے بارھویں ٹھہری۔ وہی رُوات نے اپنے حساب سے روایت کی اور مشہور ومقبول جمہور ہوئی۔ “   [20]

انبیا کو بھی اجل آنی ہے       مگر ایسی کہ فقط آنی ہے

پھر اُسی آن کے بعد اُن کی حیات     مثلِ سابق وہی جسمانی ہے

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ذمہ دار شعبہ فیضان صحابہ و اہلِ بیت المدینۃ العلمیہ  ( اسلامک ریسرچ سینٹر  ) ، کراچی



[1] تاریخ طبری ، 3 /  150

[2] مسندامام احمد ، 5 / 416 ، حدیث : 15997ملخصاً

[3] بخاری ، 3 / 153 ، حدیث : 4433ملخصاً

[4] سیرت سیدالانبیاء ، ص596

[5] مسندامام احمد ، 4 / 235 ، حدیث : 12170

[6] مدارج النبوۃ ، 2 / 418

[7] مدارج النبوۃ ، 2 / 424

[8] مدارج النبوۃ ، 2 / 425

[9] بخاری ، 3 / 153 ، حدیث : 4433ملخصاً

[10] سیرت سیدالانبیاء ، ص597

[11] سیرت سیدالانبیاء ، ص600 ، سیرت مصطفےٰ ، ص542 ، مدارج النبوۃ ، 2 / 421

[12] سیرت سیدالانبیاء ، ص597

[13] سیرت سیدالانبیاء ، ص600

[14] بخاری ، 4 / 25 ، حدیث : 5714 ، سیرت سیدالانبیاء ، ص602

[15] مدارج النبوۃ ، 2 / 426 ، سیرت سیدالانبیاء ، ص602

[16] ترمذی ، 5 / 299 ، حدیث : 3507

[17] مدارج النبوۃ ، 2 / 428 ، سیرت سیدالانبیاء ، ص603

[18] بذل القوۃ ، ص736

[19] بخاری ، 2 / 591 ، حدیث : 3903

[20] فتاویٰ رضویہ ، 26 / 417


Share