کتابِ زندگی
کوشش رسولُ اللہ کی
The Bless Efforts of the Holy Prophet
*مولانا ابورجب محمد آصف عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضان مدینہ اکتوبر 2022
مقصد کسی بھی نوعیت کا ہو اس میں کامیابی کے لئے مستقل کوششیں ضروری ہیں ، جتنا بڑا مقصد اتنی بڑی اسٹرگل ، بعض اوقات مقصد کے حصول کے راستے میں اتنی رُکاوٹیں آتی ہیں کہ اسٹرگل جاری رکھنا دشوار ہوجاتا ، ایسے میں جو ہمت ہار جاتے ہیں وہ تھک کر راستے میں بیٹھ جاتے ہیں اور جو اِن رکاوٹوں کو عبور کرلیتے ہیں کامیابی کی منزل آگے بڑھ کر ان کا استقبال کرتی ہے۔
ایک مسلمان کے لئے سب سے بڑھ کر آئیڈیل شخصیت اور کامیاب ترین رہنما ( لیڈر ) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں ، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :
( لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ(۲۱)) ترجمۂ کنز الایمان : بےشک تمہیں رسولُ اللہ کی پیروی بہتر ہے اس کے لئے کہ اللہ اور پچھلے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرے۔[1] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
یوں تو ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پاکیزہ زندگی کا ہر پہلو ہمارے لئے نشانِ منزل ہے ، لیکن ان صفحات میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مقصدِ رسالت سے بے مثال لگن ، غیرمعمولی رکاوٹوں کے باوجود اسلام کو عام کرنے کے مقدس مشن میں کامیابی کے لئے مسلسل کوشش اور ان تھک محنت کا بیان ہوگا۔
اللہ پاک کے آخری نبی محمد ِعربی ، رسولِ ہاشمی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تشریف آوری سے پہلے معاشرہ بُت پرستی ، قتل و غارت ، قبائلی رقابتوں ، کمزوروں پر ظلم ، فحاشی ، بدکاری ، سُود کے لین دین ، بچیوں کو زندہ دفن کرنے ، غلاموں اور عورتوں کو حقوق نہ دینے ، خیانت جیسی اخلاقی ، سماجی اور معاشی بُرائیوں کی غلاظت میں لِتھڑا ہوا تھا۔ ایسے میں اللہ کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دنیا میں جلوہ گری ہوئی ، آپ نے بندوں کو اللہ رب العٰلمین کی عبادت کی طرف بُلایا ، ان کی تخلیق کا حقیقی مقصد یاد دلایا ، بُرائیوں کو چھوڑ کر حُسنِ اَخلاق کا پیکر بننے کا درس دیا ، معاشرے میں امن و سکون قائم کرنے کا طریقۂ کار دیا ، مساوات کا حقیقی تصور دیا ، معاشرے کے پِسے ہوئے طبقوں بالخصوص غلاموں اور عورتوں کو جینے کا حق دلایا ، ربُّ العٰلمین کی نافرمانی کرنے والے غافلوں کو جہنم کی طرف جانے سے روک کر راہِ جنّت پر چلایا۔
اسلام کی دعوت دینے سے پہلے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی مبارک عمر کے ابتدائی 40 سال مکۂ مکرمہ کے لوگوں کے درمیان گزارے ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زندگی ان کے سامنے کھلی کتاب کی طرح تھی ، وہ آپ کے اعلیٰ کردار اور عمدہ اوصاف کی گواہی دیا کرتے تھے ، آپ کی سچائی ، امانت داری ، وعدے کی پاسداری ، پارسائی ، سادگی ، عاجزی ، خوش اخلاقی ، معاشرتی معاملات میں خوش اسلوبی کا انہیں اعتراف تھا۔ لیکن ربِّ عظیم کے حکم سے جیسے ہی رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اعلانِ نبوت کیا ، وہی لوگ آپ کے دشمن ہوگئے اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مقصد ِرسالت کی تکمیل سے روکنے کے لئے جسمانی ، مالی ، سماجی اور نفسیاتی قسم کی رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دیں جن کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں پڑھی جاسکتی ہے ، یہاں 16 مثالیں پیش کی جارہی ہیں : چنانچہ
( 1 ) جب رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صَفا ( پہاڑ ) پر قبیلہ قریش کو جمع کرکے اسلام کی علانیہ تبلیغ کی تو ابولہب کہنے لگا : تَبًّا لَكَ سَائِرَ اليَوْمِ اَلِهَذَا جَمَعْتَنَا؟ یعنی تجھ پر سارا دن ہلاکت ہو ( مَعاذَ اللہ ) کیا تم نے ہمیں اسی لئے جمع کیا تھا؟[2] یہ بڑا کٹھن مرحلہ تھا کہ آپ کا قریبی رشتہ دار آپ کے پیغام کو نہ صرف تسلیم کرنے سے انکاری تھا بلکہ مخالفت و گستاخی پر اُتر آیا تھا !
( 2 ) جب عرب میں لگنے والے مختلف بازاروں اور میلوں میں تبلیغِ اسلام کے لئے آپ کسی قبیلہ کے سامنے وعظ فرماتے تو ابو لہب چِلّا چِلّا کر کہتا : ” یہ دین سے پھر گیا ہے ، یہ جھوٹ کہتا ہے۔ “ [3]
قارئین ! ذرا سوچئے آپ کسی کو نصیحت کر رہے ہوں اور ایک شخص پاس کھڑا چیخ رہا ہو کہ اس کی بات نہ سنو ، یہ جھوٹا ہے تو اس وقت دل پر کیا گزرےگی ! یہی حرکت ابوجہل نے بھی اس وقت کی جب بازارِ ” ذی المَجَاز “ میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرمارہے تھے : ” اے لوگو ! لَآ اِلٰہَ الَّا اللہ کہو ، فلاح پاؤ گے۔ “ اس دوران ابوجہل آپ پر مٹی پھینکتا اور کہتا تھا : اے لوگو ! خبردار ! یہ شخص تم کو تمہارے دین کے حوالے سے دھوکا نہ دیدے؛ کیونکہ اس کا ارادہ ہے کہ تم لَات و عُزیٰ ( بتوں ) کو چھوڑ دو ! جب کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس کی طرف ذرہ برابر بھی توجہ نہیں فرماتے تھے۔ [4]
( 3 ) کفارِ مکہ پیغامِ رسالت کو قبول کرنے سے نہ صرف خود انکاری تھے بلکہ باہر سے آنے والے لوگوں کو بھی ورغلاتے کہ محمد ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کی بات نہ سننا ، معاذ اللہ یہ آسیب زدہ ہیں ، جادو کردیتے ہیں وغیرہ۔
( 4 ) تلاوتِ قراٰن کی آواز بلند کرنے سے زبردستی روکا جاتا اورلوگوں کے کانوں تک قراٰن پاک کی آواز پہنچنے سے روکنے کے لئے شوروغل مچایا جاتا۔[5]
( 5 ) کعبۃُ اللہ کے سامنے نمازیں ادا کرنے پر پابندی لگائی گئی ، چنانچہ شروع شروع میں مسلمان پوشیدہ طور پر نماز پڑھا کرتے۔
( 6 ) کاہن ، جادوگر اور مجنون ہونے کا جھوٹا الزام لگا کر آپ کی دعوت کوغیر مؤثر کرنے کی سازش کی گئی۔[6]
( 7 ) ان رکاوٹوں کے باجود اسلام قبول کرنے والے سعادت مندوں پر ظلم وستم کی آندھیاں چلائی گئیں تاکہ انہیں نشانِ عبرت بنایا جائے اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حوصلہ توڑا جاسکے۔
( 8 ) سردارانِ قریش عتبہ ، شیبہ ، عاص بن ہشام ، ابو جہل ، ولید بن مغیرہ اور عاص بن وائل وغیرہ نے دعوتِ اسلام سے روکنے کے لئے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں اور آپ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایمان افروزجواب دیا : خدا کی قسم ! اگر قریش میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے ہاتھ میں چاند لا کر دے دیں تب بھی میں اپنے اس فرض سے باز نہ آؤں گا۔ یا تو خدا اس کام کو پورا فرما دے گا یا میں خود دین اسلام پر نثار ہو جاؤں گا۔[7]
( 9 ) عقبہ بن ابی معیط نے سجدے کی حالت میں آپ کی مبارک پیٹھ پر اونٹنی کی بچہ دانی رکھ دی ، اس تکلیف دہ جسارت پر وہاں پر موجود کفارشرمندہ ہونے کے بجائے قہقہے مارتے رہے۔[8]
( 10 ) آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم طائف تشریف لے گئے اور وہاں کے سرداروں کو دعوتِ اسلام دی ، انہوں نے نہ صرف اسلام قبول کرنے سے انکار کیا بلکہ طائف کے آوارہ نوجوانوں کو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیچھے لگا دیا ، انہوں نے آپ پر آوازیں کسیں اور پتھراؤ بھی کیا جس پر آپ لہو لہان ہوگئے ، ایسے حالات میں بھی آپ نے اہل طائف کے حق میں دعائے خیر ہی کی۔[9]
( 11 ) کفار مکہ نے آپ اور آپ کے خاندان کا تین سال کے لئے سوشل بائیکاٹ کردیا اور اس بائیکاٹ کی دستخط شدہ تحریری دستاویز خانہ کعبہ میں آویزاں کی گئی جس کے مطابق بنوہاشم خاندان کے ساتھ شادی بیاہ ، خرید و فروخت ، میل جول ، سلام و کلام اور کھانے پینے کی اشیاء وغیرہ پہنچانے پر سخت پابندی عائد کر کے بنوہاشم کو نہ صرف شعبِ ابی طالب نامی ایک تنگ و تاریک چھوٹی سی گھاٹی میں تین سال تک محصور کردیا گیا بلکہ بائیکاٹ کی شرائط پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لئے سخت پہرے بھی بٹھائے گئے۔ تین برس کا یہ عرصہ بہت سخت اور کَٹِھن گزرا۔[10]
( 12 ) آپ سے معجزات دکھانے کا مطالبہ کرتے لیکن چاند کے دو ٹکڑے ہونے جیسے معجزے دیکھنے کے بعد بھی کفارِ مکہ اسلام لانے سے مُکر جاتے کہ یہ تو جادو ہے۔
( 13 ) ابوجہل ، عقبہ بن ابی معیط نے ناکام قاتلانہ حملے کرکے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو شہید کرنے کی بھی کوشش کی ، کفار کے کہے میں آکر حضرت عمر فاروق بھی اسلام لانے سے پہلے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر قاتلانہ حملے کیلئے ہی روانہ ہوئے تھے لیکن بارگاہِ رسالت میں پہنچتے پہنچتے ان کا دل موم ہوچکا تھا چنانچہ کلمہ پڑھ کر چالیسویں مسلمان ہونے کا شرف پایا پھر بقیہ زندگی جانثاری کا حق ادا کرنے میں گزاری۔[11]
( 14 ) ہجرتِ مدینہ کی رات کا واقعہ تو بہت مشہور ہے کہ کس طرح قبائل قریش نے اپنے اپنے نمائندے جمع کرکے قاتلانہ حملے کے لئے بھیجے جنہوں نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاکیزہ گھر کو گھیر لیا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سو جائیں تو ان پر قاتلانہ حملہ کیا جائے لیکن آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک مٹھی میں خاک لی اور سورۂ یٰسٓ شریف کی ابتدائی آیات کی تلاوت کرتے ہوئے ان کے سروں پر خاک ڈال کر انہیں دکھائی دئیے بغیر زندہ سلامت مدینے شریف کی طرف ہجرت کر گئے۔[12] مکّۂ مکرّمہ سے رخصتی کے وقت اپنی محبت کا اظہار ان الفاظ میں کیا : اے شہر ِمکّہ ! تو مجھے تمام دنیا سے زیادہ پیارا ہے۔ اگر میری قوم مجھے مجبور نہ کرتی تو میں تیرے سوا کسی اور جگہ رہائش پذیر نہ ہوتا۔[13]
( 15 ) سلام بن مِشْکَم یہودی کی بیوی زینب نے گوشت میں زہر ملا کر جان سے مارنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔[14]
( 16 ) مدینہ منورہ میں شجرِ اسلام مضبوط وتوانا ہونا شروع ہوگیا لیکن یہاں پر بھی یہودیوں کی سازشوں اور منافقین کی غداریوں کا سامنا ہوا ، اس کے علاوہ کفارِ مکہ نے مسلمانوں کو مٹانے کے لئے جنگِ بدر ، جنگِ احد اور غزوۂ خندق کی صورت میں حملے جاری رکھے۔
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی راہ میں ان کے علاوہ بھی بہت سی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں ، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایاکہ میں اللہ کی راہ میں بہت ڈرایا گیا جتنا کوئی نہیں ڈرایا جاتا اور میں اللہ کی راہ میں ستایا گیا ایسا کوئی نہیں ستایا جاتا۔[15]
اس کے باوجود آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مسلسل کوشش کی اور بالآخر فاتح کی حیثیت سے مکہ پاک میں داخل ہوئے۔ رب عظیم نے اسلام کے جس پیغام کو بندوں تک پہنچانے کی ذمہ داری دی تھی ، اس ذمہ داری کو بخوبی پورا کیااور حجۃ الوداع میں اپنے صحابۂ کرام سے پوچھا : تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے؟تمام سامعین نے کہا کہ ہم اللہ پاک سے کہیں گے کہ آپ نے اللہ پاک کا پیغام پہنچا دیا اور رسالت کا حق ادا کر دیا۔ یہ سُن کر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور تین بار فرمایا کہ اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ اے اللہ ! تو گواہ رہنا۔[16]
اے عاشقانِ رسول ! دینی کام کرنے والوں کیلئے اس مضمون میں بہترین سبق ہے کہ دور کوئی بھی ہو ، آزمائشیں کسی بھی نوعیت کی ہوں ، ہمت اور لگن کے ساتھ اسٹرگل جاری رکھیں گے تو اللہ کی رحمت سے ہم اپنے نیک مقاصد میں کامیاب ہوجائیں گے۔
ظلم کفار کے ہنس کے سہتے رہے
پھر بھی ہر آن حق بات کہتے رہے
کتنی محنت سے کی تم نے تبلیغِ دیں
تم پہ ہر دم کروڑوں درود و سلام
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* اسلامک اسکالر ، رکن مجلس المدینۃ العلمیہ اسلامک ریسرچ سینٹر ، کراچی
[1] پ21 ، الاحزاب : 21
[2] بخاری ، 3 / 294 ، حدیث : 4770 ماخوذاً
[3] سیرتِ ابنِ ہشام ، ص168 ملخصاً ، سیرتِ مصطفیٰ ، ص148
[4] مسند امام احمد ، 5 / 579 ، حدیث : 16603ملخصاً
[5] پ24 ، حٰمٓ السجدۃ : 26ماخوذاً
[6] پ14 ، الحجر : 6 ، پ11 ، یونس : 2ماخوذاً
[7] سیرت ابنِ ہشام ، ص103 ، 104ملخصاً
[8] بخاری ، 1 / 193 ، 2 / 372 ، حدیث : 520 ، 3185
[9] شرح الزرقانی علی المواہب ، 2 / 50 ، 51ملخصاً
[10] مواہب لدنیہ ، 1 / 126 ، مدارج النبوۃ ، 2 / 46 ملخصاً
[11] سیرت ابنِ ہشام ، ص136ملخصاً
[12] شرح الزرقانی علی المواہب ، 2 / 94تا97ملخصاً ، مدارج النبوۃ ، 2 / 56 ، 57 ملخصاً
[13] ترمذی ، 5 / 486 ، حدیث : 3951
[14] بخاری ، 2 / 366 ، حدیث : 3169 ، عمدۃ القاری ، 10 / 518 ، تحت الحدیث 3169ملخصاً
[15] ترمذی ، 4 / 213 ، حدیث : 2480
[16] ابو داؤد ، 2 / 269 ، حدیث : 1905 ملتقطاً
Comments