محبتِ رسول کی نشانیاں

فریاد

محبتِ رسول کی نشانیاں

دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطاری

ماہنامہ فیضان مدینہ اکتوبر 2022

جس طرح والدین ، اولاد اور دیگر رشتہ داروں کے ہم پر حقوق ہیں اسی طرح اللہ پاک کے آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےبھی ہم پر کچھ حقوق ہیں جو دیگر حقوق سے فوقیت رکھتے ہیں ، ان میں سے ایک حق تو یہ ہے کہ ہم سارے جہان سے بڑھ کر نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت رکھیں اور ساری دنیا کی محبوب چیزوں کو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت پر قربان کر دیں۔ یقیناً نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے جومسلمان بھی سچی عقیدت و محبت رکھے گا ، ان کے حقوق کو پہچانتے ہوئے دل سے ان کا ادب و احترام بجالائے گا تو وہ دنیا و آخرت میں خوش بختی پائے گا ، مگر یہ خوش بختی ہر ایک کو حاصل نہیں ، حُبِّ ِرسول کا دعوےدار ہونا الگ بات ہے جبکہ حقیقت میں مُحِبِّ رسول ہونا اور بات ہے ، اس بات کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ دعویٰ درست تب ثابت ہوتاہےکہ جب اس کے ساتھ اس کی دلیل بھی پائی جائے ، یوں ہی محبِّ رسول ہونا ایک دعویٰ ہے جوکہ حقیقت میں درست تب مانا جائے گا جب اس کے ساتھ اس کی دلیل بھی پائی جائے گی۔

محبتِ رسول کی نشانیاں : محبتِ رسول کی دلیل اور نشانی کیا ہے؟ اس کے متعلق 3 بزرگوں کے اَقوال پیش کئے جاتے ہیں :

 ( 1 ) شیخ عبدُ الحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں :  ” کامل مؤمن کے اِیمان کی نشانی یہ ہے کہ مؤمن کے نزدیک رسولِ خد ا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام چیزوں اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب و معظّم ہوں ، مؤمن حقوق کی ادائیگی میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اُونچا مانے ، اِس طرح کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لائے ہوئے دِین پر عمل کرے ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں کی پیروی کرے ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ادب بجالائے ، اپنی اولاد ، اپنے ماں باپ ، عزیز و اَقارِب اور مال و اسباب پر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضا اور خوشی کو مُقَدَّم رکھے ، اپنی ہر پیاری چیز یہاں تک کہ اپنی جان کے چلے جانے پر بھی راضی رہے لیکن حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حق کو دَبتا ہوا گوارا نہ کرے۔ “  [1]

 ( 2 ) حکیمُ الاُمّت مفتی احمدیارخان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضور سے محبت کی علامت یہ ہے کہ ان کے احکام ، ان کے اعمال ، ان کی سنّتوں سے ، ان کے قراٰن ، ان کے فرمان ، ان کے مدینہ کی خاک سے محبت ہو ، بےنماز بےروزہ بھنگی چَرسی دعویٔ عشقِ رسول کریں جھوٹے ہیں محبت کی علامت اطاعت ہے۔[2]ایک جگہ فرماتے ہیں : سب سے بڑا خوش نصیب وہ ہے جسے کَل  ( بروزِ قیامت جنّت میں )  حضور کا قُرب نصیب ہوجاوے۔ اس قرب کا ذریعہ حضور سے محبت ہے اور حضور کی محبت کا ذریعہ اتباعِ سنت ، کثرت سے دُرود شریف کی تلاوت ، حضور کے حالاتِ طیّبہ کا مطالعہ اور محبت والوں کی صحبت ہے ، یہ صحبت اِکسیرِ اعظم ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں : ساری عبادات محبتِ  ( رسول )  کی فروع  ( یعنی شاخیں )  ہیں ، مگر محبت کے ساتھ اطاعت بلکہ متابعت ضروری ہے۔ برات کا کھانا صرف عمدہ لباس سے نہیں ملتا بلکہ دولہا کے تعلق سے ملتا ہے اگر رب تعالیٰ سے کچھ لینا ہے تو حضور سے تعلق پیدا کرو۔[3]

 ( 3 ) علامہ عبدُ المصطفیٰ اعظمی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : محبتِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا دعویٰ کرنے والے تو بہت لوگ ہیں۔ مگر یاد رکھئے کہ اس کی چند نشانیاں ہیں جن کو دیکھ کر اس بات کی پہچان ہوتی ہے کہ واقعی اس کے دل میں محبتِ رسول کا چراغ روشن ہے۔ ان علامتوں میں سے چند یہ ہیں :  ( 1 ) آپ کے اقوال و افعال کی پیروی ، آپ کی سنتوں پر عمل ، آپ کے اَوامِرو نَواہی کی فرمانبرداری ، غرض شریعتِ مُطَہَّرَہ پر پورے طور سے عامل ہو جانا  ( 2 ) آپ کا ذکر شریف بکثرت کرنا ، بہت زیادہ درود شریف پڑھنا ، آپ کے ذکر کی مجالسِ مُقَدَّسَہ مثلاً میلادشریف اوردینی جلسوں کاشوق اوران مجالسِ مبارکہ میں حاضری  ( 3 ) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور تمام ان لوگوں اوران چیزوں سے محبت اور ان کا ادب و احترام جن کورسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے نسبت وتعلق حاصل ہے۔ مثلاً صحابۂ کرام ، اَزواجِ مطہّرات ، اہلِ بیتِ اَطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین ، شہرِ مدینہ ، قبرِ اَنور ، مسجدِ نبوی ، آپ کے آثارِ شریفہ و مَشاہدِ مُقدَّسہ ، قراٰنِ مجید و احادیثِ مبارکہ ، سب کی تعظیم و توقیر اور ان کا ادب و احترام کرنا  ( 4) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دوستوں سے دوستی اور ان کے دشمنوں یعنی بددینوں ، بدمذہبوں سے دشمنی رکھنا  ( 5) دنیا سے بے رغبتی اور فقیری کو مال داری سے بہتر سمجھنا۔ اس لئے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد ہے کہ مجھ سے محبت کرنے والے کی طرف فقر و فاقہ اس سے بھی زیادہ جلدی پہنچتا ہے جیسے کہ پانی کا سیلاب اپنے مُنْتَہیٰ  ( یعنی ٹھکانے ) کی طرف۔  [4]

میری تمام عاشقانِ رسول سےفریادہے ! محبتِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جوکہ اصلِ ایمان بلکہ ایمان کی بھی جان ہے اسے اپنےدِلوں میں بڑھاتے رہئے ، صرف دعوے دار نہیں بلکہ حقیقی محبّ و عاشقِ رسول بنئے ، حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لائے ہوئے قراٰن اور ان کے فرمان پر عمل کیجئے ، ان کی سیرتِ مبارکہ اور سنتوں کی معلومات حاصل کرکے ان پر عمل کیجئے ، اس کے لئے خاص طور پر مکتبۃُ المدینہ سے تین کتب  ( 1 ) سیرتِ مصطفےٰ  ( 2 ) آخری نبی کی پیاری سیرت اور  ( 3 )  550سنتیں اورآداب حاصل کرکے ان کامطالعہ کیجئے ، حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور آپ سے نسبت رکھنے والے ہر انسان اور ہر چیز کا ادب کیجئے ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں زیادہ سے زیادہ درود و سلام کے نذرانے پیش کیجئے اور مَرتے دَم تک ہر معاملے میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی لائی ہوئی شریعت پر ہی عمل کیجئے۔ اللہ کریم ہمیں حقیقی طور پر اپنے پیارے اورآخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم



[1] اشعۃ اللمعات ، 1 / 50 ، 51ملخصًا

[2] مراٰۃ المناجیح ، 6 / 603

[3] مراٰۃ المناجیح ، 6 / 589 ، 590

[4] ترمذی ، 4 / 156 ، حدیث : 2357 ، سیرت مصطفیٰ ، ص836


Share