تفسیر قراٰنِ کریم
نور ہی نور
*مفتی محمد قاسم عطّاری
ماہنامہ فیضان مدینہ اکتوبر 2022
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ( قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵)) ترجمہ کنزُالعرفان : بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آگیا اور ایک روشن کتاب۔ ( پ6 ، المآئدۃ : 15 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
تفسیر : نور کا لغوی و اصطلاحی معنی : نور کے لغوی معنی روشنی ، چمک دمک اور اُجالا ہے نیز اُسے بھی نور کہاجاتا ہے جس سے روشنی اور اجالا نمودار ہو۔ نور کی اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ نور وہ ہے جو خود ظاہر ہو اور دوسروں کو ظاہر کرے۔ پھر نور کی دو قسمیں ہیں : نورِ حسی اور نورِ معنوی۔نور ِحسی وہ جو آنکھوں سے دیکھا جاسکے ، جیسے دھوپ اور چراغ کی روشنی ، یہ نور خود ظاہر ہیں اور اپنے دائرے میں آنے والی اشیاء کو دیکھنے والے کے لیے ظاہر کردیتے ہیں۔ نور ِ معنوی وہ ہے جس کی روشنی آنکھ تو محسوس نہ کر سکے ، لیکن عقل کہے کہ اس سے تاریکی کا ازالہ ہورہا ہے ، اس سے عقلی و معنوی اُمُور ظاہر ہورہے ہیں ، یہ نور ہے ، یہ روشنی ہے۔ اس معنی کے اعتبار سے اسلام ، قرآن ، ہدایت اور علم کو نور کہا جاتا ہے۔
حقیقتِ محمدیہ کا بیان : سرکارِ دوعالم ، نورِ مجسم ، باعثِ تخلیقِ عالَم ، حضور ختمی مرتبت سیدنا ، شَفِیْعُنَا ، نَبِیُّنَا ، امامُ الانبیاء ، محمدِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حقیقت اللہ تعالیٰ نے نور بنائی اور لباسِ بشریت میں اس دنیا میں مبعوث فرمایا ، چنانچہ اوپر آیت میں بتایا گیا کہ لوگوں کے پاس اللہ کی طرف سے نور آگیا اور اس نور سے مراد ہمارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ مبارک ہے ، جیسا کہ علامہ جلا لُ الدین سیوطی رحمۃُ اللہ علیہ لفظ ” نُور “ کی تفسیر لکھتے ہوئے فرماتے ہیں : ” وَھُوَ النَّبِیُّ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم “ نور سے مراد نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں۔ ( تفسیرجلالین ، المآئدۃ ، تحت الآیۃ : 15 ، 2 / 33 ) علامہ صاوی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ” وَسُمِّیَ نُوْرًا لِاَنَّہٗ یُنَوِّرُ الْبَصَائِرَ وَ یَھْدِیْھَا لِلرَّشَادِ وَ لِاَنَّہٗ اَصْلُ کُلِّ نُوْرٍ حِسِّیٍّ وَ مَعْنَوِیٍّ “ یعنی حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نام اس آیت میں نور رکھا گیا اس لیے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بصیرتوں کو روشن کرتے ہیں اور انہیں رُشد و ہدایت فرماتے ہیں اور اس لیے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہر نور حِسّی ( وہ نور جسے دیکھا جا سکے ) اور مَعْنَوِ ی ( جیسے علم وہدایت ) کی اصل ہیں۔ ( تفسیر صاوی ، المآئدۃ ، تحت الآیۃ : 15 ، 2 / 486 )
نورِمحمدی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تخلیق کی صورت یوں ہے کہ ( اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ- ) یعنی آسمانوں اور زمینوں کو روشن کرنے والے خدا ( پ18 ، النور : 35 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) نے نورِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اس طرح پیدا فرمایا کہ اس نے تمام مخلوق سے پہلے ہمارے آقا و مولا ، محمدِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نور کو اپنے نور کے فیضان سے پیدا فرمایا ، پھر ساری کائنات کو اُسی نور سے وجود بخشا ، چنانچہ مصنف عبد الرزاق میں ہے : عن جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما قال : قلت یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بابی انت وامی اخبرنی عن اول شئی خلقہ اللہ تعالیٰ قبل الاشیاء قال یا جابر ان اللہ تعالیٰ قد خلق قبل الاشیاء نور نبیک من نورہ ترجمہ : حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ میں نے بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں عرض کیا : یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کس شے کو پیدا کیا؟ حضور نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اے جابر! بے شک اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق ( کو پیدا کرنے ) سے پہلے تمہارے نبی ( محمد مصطفیٰ ) کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا ( اس کے بعد مفصل حدیث ہے کہ اس نور کے چار حصے کئے گئے جن سے لوح ، قلم اور عرش بنائے اور چوتھے حصے کے پھر چار حصے کیے اور یوں تقسیم در تقسیم کرتے ہوئے ساری کائنات وجود میں آئی ) ۔
( الجزء المفقود من الجزء الاول من المصنف لعبدالرزاق ، ص63 ، حدیث : 18 ، المواھب اللدنیہ ، 1 / 36 )
تیرے ہی ماتھے رہا اے جان سہرا نور کا
بخت جاگا نور کا چمکا ستارا نور کا
تو ہے سایہ نور کا ہر عضو ٹکڑا نور کا
سایہ کا سایہ نہ ہوتا ہے نہ سایہ نور کا
حضور سید دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نورِ حسی بھی ہیں اور نور ِ معنوی بھی۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سراپا نور ہونے کے باوجود اپنے نور میں اضافے کی دعا مانگا کرتے تھے ، جیسے ہدایت پر ہونے بلکہ سراپا ہدایت ہونے کے باوجود ہر نماز میں صراط مستقیم پر ہدایت میں اضافے کی دعا کرتے تھے ، چنانچہ دعائے نور بخاری شریف میں اس طرح ہے : اللهم اجعل في قلبي نورا ، وفي بصري نورا ، وفي سمعي نورا ، وعن يميني نورا ، وعن يساري نورا ، وفوقي نورا ، وتحتي نورا ، وامامي نورا ، وخلفي نورا ، واجعل لي نورا ترجمہ : اے اللہ! میرے دل میں نور بھردے ، میری نظر میں نور پیدا فرما ، میرے کانوں میں نور ، میرے دائیں نور ، میرے بائیں نور ، اوپر نور ، نیچے نور ، آگے نور ، پیچھے نور اور مجھے ( سر تا پا ) نور بنا دے۔ ( بخاری ، 4 / 193 ، حدیث : 6316 ) اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دعا کے قبول ہونے میں کوئی مومن شک کرہی نہیں سکتا۔
نورِ محمدی کی مثال : ہمارے آقا و مولا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نور ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کے نور کی مثال قرآن مجید میں یوں بیان فرمائی : ترجمہ : اللہ آسمانوں اور زمینوں کو روشن کرنے والا ہے۔ اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق ہو جس میں چراغ ہے ، وہ چراغ ایک فانوس میں ہے ، وہ فانوس گویا ایک موتی کی طرح چمکتا ہوا ستارہ ہے جو زیتون کے برکت والے درخت سے روشن ہوتا ہے جو نہ مشرق والا ہے اور نہ مغرب والاہے۔ قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اٹھے اگرچہ اسے آگ نہ چھوئے۔ نور پر نور ہے ، اللہ اپنے نور کی راہ دکھاتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے اور اللہ ہر شے کو خوب جاننے والا ہے۔ ( پ18 ، النور : 35 ) حضرت کعبُ الاحبار رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدُاللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے سامنے بیان فرمایا کہ یہ مثال نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ مبارک کی ہے۔ ( تفسیر خازن ، النور ، تحت الآیۃ : 35 ، 3 / 354 )
حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ مبارک نہ صرف خود نور ہے بلکہ آپ ساری دنیا کے لیے ایسے چمکتے ، جگمگاتے ، روشن کردینے والے آفتاب ہیں کہ جن کے نور سے سارا جہاں روشن ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے : (وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶)) ترجمہ : اور ( اے نبی ، ہم نے تمہیں ) اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا۔ ( پ22 ، الاحزاب : 46 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
نورانی کتاب : حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ تعالیٰ نے کتاب بھی وہ عطا فرمائی جو نور ہے اور اپنی نورانیت سے قربِ الٰہی کے راستے ظاہر کردینے والی ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے : (وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا(۱۷۴) ) ترجمہ : اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور نازل کیا۔ ( پ6 ، النسآء : 174 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور آپ کو عطا کیے گئے اُسی نور کی پیروی میں فلاح و نجات و عظمت و سعادت ہے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠(۱۵۷) ) ترجمہ : تو وہ لوگ جو اس نبی پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی مدد کریں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ ( پ9 ، الاعراف : 157 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
نورانی دین : اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دین بھی وہ عطا فرمایا جو نور ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا دین یعنی دینِ اسلام خدا کی خوشنودی کے راستے ظاہر کرنے والا اور خدا سے دور کرنے والے اعمال و اقوال کی نشان دہی کرنے والا ہے۔ اس نور ( دینِ اسلام ) کو کوئی بجھا نہیں سکتا خواہ لوگ کتنی ہی کوشش کرلیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِـٴُـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ یَاْبَى اللّٰهُ اِلَّاۤ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ(۳۲)) ترجمہ : یہ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ سے اللہ کا نور بجھا دیں حالانکہ اللہ اپنے نور کو مکمل کئے بغیر نہ مانے گا اگرچہ کافر ناپسند کریں۔ ( پ10 ، التوبۃ : 32 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اس نور یعنی اسلام کو قبول کرنے والا خدا کی طرف سے شرحِ صدر کی دولت اور ایک عظیم نور کا شرف پالیتا ہے۔ چنانچہ فرمایا : (اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰى نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖؕ ) ترجمہ : تو کیا وہ جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہے۔ ( پ23 ، الزمر : 22 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
نور کی پیروی والوں کے لیے نور : حضور پُرنور ، شافعِ یوم النُشور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اتباع ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر اترنے والے نور یعنی قرآن کی پیروی اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لائے ہوئے نور یعنی دینِ اسلام کو ماننے اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نورانی تعلیمات پر عمل کرنے والوں کیلئے قیامت کے دن بھی نور ہی نور ہوگا ، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ( نُوْرُهُمْ یَسْعٰى بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ بِاَیْمَانِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَ اغْفِرْ لَنَاۚ ) ترجمہ : ( روزِ قیامت ) ان کا نور اُن کے آگے اور ان کے دائیں دوڑتا ہوگا ، وہ عرض کریں گے ، اے ہمارے رب! ہمارے لیے ہمارا نور پورا کردے اور ہمیں بخش دے۔ ( پ28 ، التحریم : 8 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور مزید فرمایا : ( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهٖ یُؤْتِكُمْ كِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِهٖ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ وَ یَغْفِرْ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌۚۙ(۲۸)) ترجمہ : اے ایمان لانے والو!اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ تووہ اپنی رحمت کے دو حصے تمہیں عطا فرمائے گا اور وہ تمہارے لیے ایک ایسا نور کردے گا جس کے ذریعے تم چلو گے اور وہ تمہیں بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ ( پ27 ، الحدید : 28 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
میں گدا تو بادشاہ بھر دے پیالہ نور کا
نور دن دونا تِرا دے ڈال صدقہ نور کا
جو گدا دیکھو لیے جاتا ہے توڑا نور کا
نور کی سرکار ہے کیا اس میں توڑا نور کا
اے اللہ! ہمیں اپنے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نور کے وسیلے سے قرآن و اسلام کی نورانی تعلیمات اور سنّتِ نبوی کے نور کو اپنانے کی توفیق عطا فرما ، ہمارا ظاہر و باطن تقویٰ و سُنَّت کے نور سے روشن فرما پھر نورِ مصطفیٰ سے ہماری قبریں روشن فرمانا اور قیامت کے دن اہلِ ایمان کو ملنے والے نور سے ہمیں بھی حصہ عطا فرمانا۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ ، دارالافتاء اہل سنّت ، فیضان مدینہ کراچی
Comments