دوزخ کے بارے میں عقائد

اللہ پاک نے کُفّار، مُشرکین ، منافقین اور گناہ گاروں کو ان کے اَعمال کی سزا دینے کے لئے آخرت میں ایک نہایت ہی خوفناک اور بَھیانک مَقام تیار کر رکھا ہے اُس کا نام ”جَہَنَّم“ ہے اور اُسی کو اُردو میں ”دوزخ“ بھی کہتے ہیں۔ عقیدہ دوزخ حق ہے، اس کا انکار کرنے والا کافر ہے، یونہی جو شخص دوزخ کو تو مانے لیکن مسلمانوں میں رائج دوزخ کے عُمومی معنیٰ سے ہَٹ کر الگ تشریح کرے مثلاً عذاب سے روحانی عذاب مراد لے کہ اپنے بُرے اعمال دیکھ کر افسردہ ہونا تو ایسا شخص بھی کافر ہے دَرْحقیقت یہ دوزخ کا ہی منکر ہے۔ ( الشفا،ج2،ص290) دوزخ کو پیدا ہوئے ہزاروں سال ہو گئے ہیں(بہار شریعت،ج1،ص151) اور وہ اب بھی موجود ہے ایسا نہیں ہے کہ قِیامَت کے دن بنائی جائے گی۔ (منح الروض الازھر، 284) دوزخ کہاں ہے؟ دوزخ ساتویں زمین کے نیچے ہے۔(منح الروض الازھر، 285) دوزخ کی آگ کا رنگ جہنّم کی آگ ہزار بَرَس تک دھونکائی گئی، یہاں تک کہ سُرخ ہوگئی، پھر ہزار بَرَس دھونکانے کے بعد سفید ہوگئی، پھر ہزار بَرَس دھونکائی گئی تو سیاہ ہوگئی اب وہ بالکل سیاہ ہے۔ (ترمذی،ج4،ص266، حدیث: 2600) دوزخ کی گہرائی دوزخ کی حقیقی گہرائی تو اللہ پاکہی جانتا ہے یا اس کے بتائے سے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، البتہ حدیثِ پاک میں اتنا فرمایا گیا ہےکہ اگر پتھر کی چَٹان جہنّم کے کنارے سے اُس میں پھینکی جائے تو ستّر برس میں بھی تہہ تک نہ پہنچے گی(ترمذی،ج4،ص260، حدیث: 2584) اور اگر انسان کے سر کے برابر سیسہ کا گولا آسمان سے زمین کی طرف پھینکا جائے تو رات آنے سے پہلے زمین تک پہنچ جائے گا، حالانکہ یہ پانچ سو برس کی راہ ہے۔(ترمذی،ج 4،ص265،حدیث: 2597) دوزخ کی وسعت حضرت سیّدنا عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما نے اپنے شاگرد حضرت مجاہد  رحمۃ اللہ  علیہ سے جہنّم کی وُسعَت کے متعلّق دریافت فرمایا اور پھر خود ہی  جواباً فرمایا : ایک جہنمی کے کان کی لَو اور کندھے کے درمیان ستّر سال کی مسافت کا فاصلہ ہوگا۔(موسوعۃ الامام ابن ابی الدنیا،ج6،ص402)میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اس سے اندازہ لگائیے کہ جب ایک جہنمی کا قد اتنا بڑا ہوگا تو خود دوزخ کتنی بڑی ہوگی۔ اَلْاَمَان وَالْحَفِیْظ دوزخ کے طبقات اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : (لَهَا سَبْعَةُ اَبْوَابٍؕ-لِكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُوْمٌ۠(۴۴))ترجمۂ کنزُ الایمان: اُ س کے سات دروازے ہیں ہر دروازے کے لئے ان میں سے ایک حصہ بٹا ہواہے۔(پ14،الحجر:44)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) سات دروازوں سے مراد جہنّم کے سات طبقات (درجات ) ہیں جن کے نام یہ ہیں:(1)جَہَنَّم (2)لَظَی (3)حُطَمَہ (4)سَعِیْر (5)سَقَر  (6)جَحِیْم  (7)ہَاوِیَہ۔ (موسوعۃ الامام ابن ابی الدنیا،ج6،ص400) دوزخیوں کی غِذا جہنمیوں کو کھانے کے لئے خاردار تُھوہَڑ ( کانٹے دار زہریلا درخت) دیا جائے گا۔(ترمذی،ج 4،ص263، حدیث:2594 ماخوذاً) جبکہ پینے کے لئے جہنمیوں کے بدن سے نکلنے والی پِیپ اور تیل کی تہہ کی طرح  کھولتا ہوا گرم پانی دیا جائے گاجس کی گرمائش کا یہ عالَم ہوگا کہ منہ  کے قریب آتے ہی منہ کی ساری کھال گَل کر اس میں گِر پڑے گی، اوروہ پانی  پیٹ میں جاتے ہی آنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا جس کی وجہ سے آنتیں شوربے کی طرح بہہ کر قدموں کی طرف نکلیں گی۔(ترمذی،ج 4،ص262،حدیث:2591،2592،2593) دوزخیوں کا حُلْیہ ہماری انسانی شکل و صورت اللہ پاک کو پسند ہے کیونکہ اللہ پاک کے محبوب کےچہرۂ مُبارکہ جیسی ہے، لہٰذا کفار کی شکل جہنم میں انسانی شکل نہیں ہوگی بلکہ مختلف ہوگی جن کا مختلف احادیث میں یوں بیان ہے : جَہَنّمیوں کی شکلیں ایسی نفرت انگیز ہوں گی کہ اگر دنیا میں کوئی جہنمی اُسی صورت پر لایا جائے تو تمام لوگ اس کی بدصورتی اور بَدبُو کی وجہ سے مَرْ جائیں۔(الترغیب والترھیب،ج 4،ص263، حدیث:68) اور کُفّار کا جسم اتنا بڑا کر دیا جائے گا کہ ایک کندھا سے دوسرے تک تیز سوار کے لئے تین 3دن کی راہ ہے۔(بخاری،ج 4،ص260، حدیث: 6551) ایک ایک داڑھ اُحد کے پہاڑ برابر ہوگی، کھال کی موٹائی بیالیس ہاتھ کی لمبائی جتنی  ہوگی، بیٹھنے کی جگہ اتنی ہوگی جیسے مکّہ سے مدینہ تک (ترمذی،ج 4،ص260، حدیث:2586) زبان کوس دو کوس[1]تک منہ سے باہر گھسٹتی ہوگی کہ لوگ اس کو روندیں گے (ترمذی،ج 4،ص261، حدیث: 2589) اور جہنمیوں کا  اوپر کا ہونٹ سِمٹ کر بیچ سر کو پہنچ جائے گا اور نیچے کا لٹک کر ناف کو آلگے گا۔(ترمذی،ج 4،ص264، حدیث: 2596) میدان حشر میں جہنّم کو کیسے لایاجائے گا؟ حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن جہنّم کو لایا جائے گا، اس کی ستّر ہزار لگامیں ہوں گی اور ہر لگام کو ستّر ہزار فرشتے پکڑ کر کھینچ رہے ہوں گے۔(مسلم، ص1167، حدیث:7164)جہنّم کا سب سے ہلکا عذاب کیساہے؟دوزخ میں سب سے ہلکے عذاب والا وہ ہے جسے آگ کے دو جوتے اور دو تسمے پہنائے جائیں گے جن سے اس کا دماغ ہنڈیا کی طرح جوش مارے گا وہ یہ سمجھے گا کہ سب سے زیادہ سخت عذاب اسی پر ہے حالانکہ اس پر سب سے ہلکا عذاب ہوگا۔(مسلم، ص111، حدیث: 517) اِسی حدیث میں امام احمد کی روایت یوں ہے:اس کے تلووں میں انگارے رکھے جائیں گے جس سے بھیجا اُبلے گا۔(مسندا حمد،ج 6،ص381، حدیث:18418) دوزخ کے عذابات کی مختلف صورتیں احادیثِ مُبارکہ کی روشنی میں پتا چلتا ہے کہ جہنمیوں کو مختلف طریقوں سے ان کے اعمال کی سز ادی جائے گی مثلا آگ، خونی دریا، گلپھڑے چیرنا، پتھراؤ سے سر کچلنا، منہ نوچنا، سانپ بچھواور حلق میں پھنسنے والے کھانے۔ (جہنم کے خطرات،ص16تا20ملتقطاً) عذابِ دوزخ سے حفاظت کی دُعا حضرت سیّدُنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص تین بار جہنّم سے پناہ مانگتا ہے تو جہنّم بھی کہتی ہے: یااللہ! اسے دوزخ سے محفوظ رکھ۔(ترمذی،ج 4،ص257، حدیث:2581)

پیارے اسلامی بھائیو! قراٰن و حدیث میں کئی ایسے اعمال کا بیان ہے جن پر جہنّم کی وعید سنائی گئی ہے، ایسے تمام اعمال کے بارے میں جاننے اور  ان سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اللہ پاک سے اس کی رَحمت اور عافِیّت کا سوال کرتے رہنا چاہئے۔

جن اعمال پر دوزخ کی وعید سنائی گئی ہے ان کے بارے میں جاننے کے لئے ”مکتبۃُ المدینہ“ کی کتاب ”جہنّم میں لے جانے والے اعمال“ مکتبۃُ المدینہ سے ھدیۃً حاصل کیجئے یا دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ www.dawateislami.net سے مفت ڈاؤن لوڈ کیجئے،پڑھئے اور دوسروں کو بھی ترغیب دلائیے۔

خوف آتا ہے نارِ دوزخ سے ہو کرم بہرِ مصطفیٰ یا رب

ذوالقعدۃ الحرام کے چند اہم واقعات

٭ذوالقعدۃ الحرام5ہجری میں غزوۂ خَندق ہوا جس میں 7صَحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان شہید ہوئے اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔

٭ذوالقعدۃ الحرام6ہجری میں بَیْعۃُ الرِّضْوان کا واقعہ پیش آیا اور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صَحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے بیعت لی جس کے بعد صُلح حُدَیْبِیہ ہوئی۔

٭ذوالقعدۃ الحرام7ہجری میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے عمرۂ قضا ادا فرمایا اور اسی موقع پر امُّ المؤمنین حضرت سیّدَتُنا میمونہ رضی اللہ عنہا سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نکاح میں آئیں۔

٭ذوالقعدۃ الحرام8ہجری میں بھی حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےعمرہ ادا فرمایا۔

٭ذوالقعدۃ الحرام9ہجری میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے 300مسلمانوں کا ایک قافلہ حج کے لئے مدینۂ منوّرہ سے مکّۂ مکرمہ بھیجا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیرُ الحج مقرر فرمایا۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…ماہنامہ فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی



1۔۔۔ راستہ کی حد ِ معیّن کا نام جس کی مقدار بعض کے نزدیک چار ہزار گز اور بعض کے نزدیک تین ہزار گزہے۔(حاشیہ بہارشریعت،ج1،ص170)


Share

Articles

Comments


Security Code