تنقید برائے تنقید

تنقیدیعنی نکتہ چینی اورتَبصرہ آج کل بہت عام ہے،یہ عموماً 2 طرح سے کی جاتی ہیں (1)تنقید برائے اصلاح اور (2)تنقید برائے تنقید۔ پہلی طرح کے افراد اگرچہ دنیا میں پائے جاتے ہیں مگر دوسری طرح کے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے، گھر، مدرسہ، اسکول، کالج و یونیورسٹی، دفتر، فیکٹری اَلْغرض جہاں کہیں بھی انسانوں کا وجود ہو عام طور پر وہاں تنقیدی مِزاج کے افراد دیگر لوگوں کواپنی تنقیدکانشانہ بناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ اصلاح کے بہانے لوگوں پر نکتہ چینی کرتے، ان کے دل دُکھاتے، غیبتیں کرتے اور ان کے عیبوں کو اُچھالنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ ایسے افراد کو لوگوں میں اچھائیاں کم جبکہ خرابیاں زیادہ نظرآتی ہیں۔ مؤمن کی شان اور مُنافِق کا کام حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن محمد بن مَنازِل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اَلْمُؤمِنُ یَطْلُبُ مَعَاذِیْرَ اِخْوَانِہٖ یعنی مؤمن اپنے مسلمان بھائیوں کا عُذْر تلاش کرتا ہے وَالْمُنَافِقُ یَطْلُبُ عَثَرَاتِ اِخْوَانِہٖ جبکہ مُنافِق اپنے بھائیوں کی غَلَطیاں ڈھونڈتا پھرتا ہے۔(شعب الایمان،ج7،ص521،حدیث:11197) تنقیدی مِزاج کے عُمومی نقصانات ٭ایسے شخص سے بہت کم لوگ مَحَبّت کرتے ہیں ٭اس کے مخلص دوست بھی نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں ٭آئے دن اس کا کسی نہ کسی سے جھگڑا رہتا ہے ٭اسے اپنے گھر لانا اور دعوت پر بلانا پسند نہیں کیا جاتا ٭ایسا شخص اگر سیٹھ ہو تو ملازم، شوہر ہو تو بیوی، ساس ہو توبَہُو، والد ہو تو اولاد، استاد ہو تو طَلبہ، امام ہو تو مُقْتدی، نگران ہو تو ماتحت، سینئر ہو تو جونیئرز اس کی بے جا تنقیدوں اور نکتہ چینیوں کی وجہ سے پریشان اور بےزار رہتے ہیں۔ شوہر اور تنقید مُعاملہ کپڑوں کی استری کا ہو یا کہ گھر کی صفائی کا، سالن میں نمک مرچ کم زیادہ کا ہو یا چائے اور کافی کے پھیکا رہ جانے یا میٹھا تیز ہونے کا، الغرض کئی معاملات میں بعض شوہروں میں یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیوی پر طرح طرح سے تنقیدیں کرتے اور اللہ کی بندی کا دل دُکھاتے رہتے ہیں۔ والد اور تنقید اولاد گھر دیر سے آئے، اسکول یا ٹیوشن نہ جائے، امتحان میں اس کا رِزَلٹ اچھا نہ آئے، پڑھائی میں اس کادل نہ لگے، کام کرنے جائے تو کچھ دن کام کرکے پھر چھوڑدے، ان تمام معاملات میں پُوچھ گچھ کرنا اور اولاد کی بےپروائی ، سُستی اور غلطی کے ظاہر ہونے پر اسے مناسب انداز میں سمجھانا اگرچہ والد کا حق ہے، مگر بعض نادان باپ ایسے مواقع پر اَصْل وجہ کو معلوم کئے بغیر اپنی اولاد پر چڑھائی کرتے، اسے ڈانٹتے، دوسروں کے سامنے طعنے دیتے اور اپنی ہی اولاد کی غیبتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح اولاد اگر کوئی کام دُرُسْت بھی کرے تب بھی بعض والد اُس کے اس کام میں خرابیاں نکالتے، اس پر تنقیدیں کرتے اور ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ گویا اولاد کو کام کرنا ہی نہیں آتا۔ یونہی اولاد اگر دنیا کے بجائے آخرت کو ترجیح دے کر علمِ دین حاصل کرنے کا کہتی، سنّتوں بھرے اجتماع میں شرکت اور مَدَنی قافلے میں سفر کی درخواست کرتی اور مسجد میں زیادہ آنے جانے لگتی ہو تو بعض نادان باپ ان مواقع پر بھی اپنی اولاد کے ساتھ غلط رویَّہ اپناتے اور بھلائی سے روکنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتےہیں۔استاد اور تنقید بعض اوقات طالبِ علم کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر اچّھے اور مناسب انداز میں اس کی ذِہن سازی، وقت کی قدر اور پڑھائی کی اہمیت اس کے ذہن میں بٹھانے کے بجائے کئی استاد طالبِ علم پر تنقیدیں کرتے، بلااجازتِ شرعی دوسرے طَلَبہ کے سامنے اس کی بےعزّتی کرتے اور اس کے مستقبل کو بجائے سنوارنے کے برباد کردیتے ہیں۔ ذِمّہ دار اور تنقید نگران کا تنقیدی انداز اس کے علاقے کے مَدَنی کاموں کی ترقّی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتا ہے، ماتحتوں پر تنقید سے نہ تو نگران خود ترقّی کر سکتا ہے اور نہ ہی اس کے مَدَنی کام، بلکہ اس سے گناہوں کے دروازے کُھلتے اور نتیجۃً ماتَحت اسلامی بھائی مدنی کاموں اور بَسااوقات تو مدنی ماحول سے بھی دور ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا ہر ذمّہ دار مکمل طور پر تنقید سے پرہیز کرے اور بقدرِ ضرورت اصلاح کا بھی ایسا انداز اپنائے کہ گفتگو کے بعد ماتحت کے دل میں کینہ نہیں بلکہ نگران کی مَحَبّت ہی میں اضافہ ہو۔ چُبھتے رویّے معاشرے میں اور بھی کئی مواقع پر لوگوں کو بےجا تنقیدوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ان میں سے کچھ مثالیں یہ ہیں: (1)بعض لوگ اپنے ماضی کے غلط کردار سے توبہ کرچکے اور اچّھے راستے پر گامْزن ہوچکے ہوتے ہیں، جب وہ کسی ایسے شخص سے ملتے ہیں جو ان کے ماضی پر مُطّلع ہوتا ہے تو بَسا اوقات وہ کہتا ہے ”میں تم کو جانتا ہوں کہ تم پہلے کیا تھے“، یوں اسے اس کی گزشتہ زندگی کےگناہوں پر عار دِلا رہے (شرمندہ کررہے) ہوتے ہیں، ایسے لوگ اس روایت سے عبرت حاصل کریں، پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے بھائی کو ایسے گناہ پر عار دلایا جس سے وہ توبہ کرچکا ہے، تو مرنے سے پہلے وہ خود اس گناہ میں مبتلا ہوجائے گا۔ (ترمذی،ج4،ص 227، حدیث:2513) (2)بعض اوقات آفس یا ادارے میں کام کرنے والے افراد ایک دوسرے کے کام پر بے جا تنقیدیں کرتے، ایک دوسرے کا حوصلہ پَسْت کرتے اور افسران کی نظروں میں ایک دوسرے کی قدر کم کرتے دکھائی دیتے ہیں (3)کوئی شخص بازار سے کوئی چیز خرید کر لاتا ہے تو بسا اوقات وہ چیز قیمت اور کوالٹی کے اعتبار سے بِالکل دُرُسْت ہوتی ہے مگر پھر بھی دوست یا گھر والے اس پر تنقیدیں کرتے ہیں کہ مہنگی خریدی ہے، آپ کو خریدنا بھی نہیں آتا، دوسری جگہ سے خرید لیتے، وہاں کم قیمت میں مل جاتی، یا اس چیز میں خامیاں تلاش کرکے کہہ دیا جاتا ہے کہ ہلکی کوالٹی کی ہے (4)میسج، واٹس ایپ اور گروپ میں بعض اوقات کسی کی طرف سے کوئی تحریر آتی ہے، اس میں پروف ریڈنگ کی کوئی غلطی ہوتی ہے، جسے بنیاد بناکر لوگ اس شخص پر خوب ہنستے اور طرح طرح سے تنقیدیں اور تبصرے کرتے ہیں اور اس کی عزّت کو خراب کرکے اپنی آخرت کا خسارَہ کر رہے ہوتے ہیں۔ کسی پر تنقید سے خود کو کیسے بچائیں؟ مخاطَب کی دل آزاری کا خوف اور اس کی عزّتِ نفس کا لِحاظ، یہ دونوں باتیں جب کسی بھی شخص کےدل میں پیدا ہوجاتی ہیں توان کے اثرات اس کی زبان اور اَعْضا پر بھی ظاہر ہونے لگتے ہیں، پھر اس کی گفتگو اور کام میں بلامصلحتِ شرعی کسی کا دل دُکھانا اور اس کی عزّت کو اُچھالنا شامل نہیں ہوا کرتا۔

میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے! کہ کسی کے کلام، کام اور اس سے متعلّق کسی بھی حوالے سے گفتگو کرنی ہو تو شرعی حُدود اور اصلاح کے پہلو کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اس سے اکیلے میں، نرم لہجے اور ہَمدرْدانہ انداز میں گفتگو کیجئے، تنقیدی مزاج، چُبْھتے انداز اور جارحانہ رویّے کو اپنے قریب بھی مَت آنے دیجئے، اگر آپ پر بھی کوئی تنقید کرے تو جب تک شریعت واجب نہ کردے جواب نہ دیجئے، اللہ پاک نے چاہا تو اس کے مثبت نتائج آپ خود دیکھ لیں گے، اللہ کریم ہمیں دوسروں کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اپنی اصلاح پر بھی توجہ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّیاللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

www.facebook.com/maulanaimranattari

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭… دعوت اسلامی کی مرکزی شوریٰ  کے نگران مولانا محمد عمران عطاری


Share