فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:اَلْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّةُ ترجمہ: حج مبرور کا ثواب جنّت ہی ہے۔(بخاری،ج1،ص586، حدیث: 1773)
یعنی مقبول حج کا بدلہ صرف دنیاوی
غذا اور گناہوں کی معافی یا دوزخ سے نجات یا تخفیفِ عذاب نہ ہوگا،بلکہ جنّت
ضرورملے گی۔ (مراٰۃ المناجیح ،ج4،ص96)
حج مبرور کیا ہے؟ مبرور ”بِرٌّ “ سے بناہے جس کے معنی اس اطاعت اور احسان کے ہیں جس سے خدا
کا قرب حاصل کیا جاتا ہے۔حجِ مبرور کو ”حجِ مقبول“ بھی کہہ سکتے ہیں۔ علما نے اس
کی مختلف تعریفات بیان کی ہیں۔(1) حجِ مبرور وہ حج ہے جس میں گناہ سے بچا جائے (2)وہ
حج جس میں ریا کاری اور شہرت و نام و نمود سے پرہیز ہو (3) وہ حج جس کے بعد حاجی
مرتے وقت تک گناہوں سے بچے اور حج برباد کرنے والا کوئی عمل نہ کرے۔ (4)حجِ مبرور
وہ ہے جو حاجی کا دل نرم کردے کہ اس کے دل میں سوز،آنکھوں میں تَری رہے (5) بندے
سے حج کے جن احکامات(ارکان و شرائط و
واجبات وغیرہ) کو طلب کیا گیا ہے انہیں کامل طریقے سے ادا کرنا
حجِ مبرور ہے (6)حضرت خواجہ حسن بَصَری رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حجِ مقبول وہ ہے جس کے بعد حاجی
دنیاسے بے رغبت اور آخرت کے معاملے میں رغبت کرنے والا ہوجائے۔ (مراٰۃ
المناجیح،ج 5،ص441 ماخوذاً، فتح الباری،ج 4،ص329، تحت الحدیث: 1521)
اے
عاشقانِ رسول! ہر حاجی کی خواہش ہونی چا ہئے کہ اس کا حج بارگاہِ الٰہی میں مقبول
ہوجائے۔
حج
مبرور کیسے ہو؟ وہ اعمال جو حج کے مقبول ہونے میں مددگار و معاوِن
ثابت ہوتے ہیں: ٭پاک و حلال مال سے حج کرے (زرقانی علی الموطاالامام مالک،ج 2،ص376، تحت
الحدیث: 783) ٭گناہ سے بچے ٭لوگوں
کے ساتھ بھلائی کرے ٭ان کو کھانا کھلائے ٭ان سے نرم گفتگو
کرے، سلام کو عام کرے (عمدۃ القاری،ج 7،ص402، تحت
الحدیث: 1773) ٭حاجت سے زیادہ توشہ (زادِ
راہ) رکھے کہ رفیقوں کی مدد اور فقیروں پر تصدّق کرتا
چلے۔(بہار
شریعت، حصہ 6،ج 1،ص1051)
حجِ مبرور کی علامتیں حُجّۃُ الاسلام حضرت سیّدُنا امام محمد غزالیرحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حج کی مقبولیت کی علامتیں یہ ہیں(1)مال یا بدن میں کوئی مصیبت یا نقصان پہنچے تو اسے خوش دلی سے قبول کرے (2)جو گناہ کرتا تھا انہیں چھوڑ دے (3)بُرے دوستوں سے کَنارہ کش ہوکر نیک بندوں سے دوستی کرے (4)کھیل کُوداور غفلت بھری بیٹھکوں کو ترک کرکے ذکر اور بیداری کی مجلس اختیار کرے۔ (احیاء العلوم،ج 1،ص354) (5)واپسی کے بعد دنیا سے بے رغبت ہوکر آخرت کی جانب متوجّہ ہو اور بیتُ اللہ شریف کی زیارت کے بعد اپنے رب سے ملاقات کی تیاری کرے۔(احیاء العلوم،ج 1،ص349)
حج کے
بعد بھی گناہوں سے بچئے (حج سے پہلے کے حقوقُ اللہ اور حقوقُ العباد جس کے ذمہ تھے) اگر
بعد حج با وصفِ قدرت ان اُمور (مثلاً قضا نما ز و روزہ، باقی ماندہ زکوٰۃ
وغیرہ اور تلف کردہ بقیہ حقوقُ العباد کی
ادائیگی) میں قاصِر رہا تو یہ سب گناہ اَز سر ِنَو اس کے سر ہوں گے کہ حقوق تو خود
باقی ہی تھے ان کی ادا میں پھر تاخیر و تقصیر گناہِ تازہ (نئے) ہوئے اور وہ حج ان کے اِزالہ کو
کافی نہ ہوگا کہ حج گزرے (یعنی پچھلے) گناہوں کو دھوتا ہے آئندہ کے لئے
پروانۂ بے قیدی (گناہ کرنے کا اجازت نامہ) نہیں ہوتا بلکہ حجِ مبرور کی نشانی ہی یہ ہے کہ
پہلے سے اچّھا ہوکر پلٹے۔ (فتاویٰ رضویہ،ج 24 ،ص466)
نافرمانی سے بچوحضرتِ سیِّدُنا فُضیل بن عِیاض رحمۃُ اللہ علیہ نے ایک حاجی سے فرمایا: اے حاجی! بلا شبہ اللہ پاک حاجی کے عمل پر نور کی مہر لگا دیتاہے،لہٰذا تو اس سے بچ کہ اللہ پاک کی نافرمانی کرکے اس مہر کو توڑ ے۔(الروض الفائق، ص55)
نیت
فرمالیجئے اے حاجیو! نیّت کرلیجئے کہ نہ صرف اس مقدّس سفر
کے دوران بلکہ اس کے بعد بھی گناہوں سے بچنے کی بھرپور کوشش کریں گے ۔
اچّھی صحبت اپنالیجئے یاد رکھئے! بُری صحبت میں رہتے ہوئے گناہوں سے بچنے کی خواہش ایسی ہے جیسے پانی میں چھلانگ لگا کر کپڑے گِیلے ہونے سے بچنے کی خواہش! مَدنی مشورہ ہے کہ دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہوکر عاشقانِ رسول کی صحبت اپنا لیجئے، اِنْ شَآءَ اللہ دیگر برکات کے علاوہ گناہوں سے بچنے،نیکیاں کرنے اور بار بار مکّے مدینے کی باادب حاضری کا جذبہ بھی پیدا ہوگا۔ اللہ پاک ہمیں بار بارحجِ مبرور کی سعادت عطا فرمائے ۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭… ماہنامہ فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی
Comments