عمرہ
پیکیج اور اُدھار؟
سوال:کوئی عمرے پر جانا چاہتا
ہے مگر ایک بار اس کے ساتھ فراڈ ہو چکا ہے اب اس کی ہمت نہیں ہو رہی تو کیا میں اس کو اس طرح کہہ
سکتا ہوں کہ آپ کے جو اخراجات ہیں ایک ٹکٹ کے 50 ہزار روپےا ور دو ٹکٹوں کے ایک
لاکھ روپے وہ میں دیتا ہوں عمرہ کرکے آنے کے بعد آپ مجھے دے دینا پھر وہ مجھے 90
ہزار میں خرچہ آئے یا 95 ہزار میں تو اس کے حوالے سے شرعی راہنمائی فرمادیں؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ
الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب:اس مسئلے کی دو صورتیں
ہیں: ایک صورت یہ ہے کہ آپ نے اس کے ساتھ احسان و بھلائی کے طور پر ایسا کیا کہ آپ
عمرے پر چلے جاؤ، فی الحال میں پیسے دے دیتا ہوں جب آپ آؤگے تو مجھے واپس دے دینا،
اس صورت میں آپ اتنے ہی پیسے لیں گے جتنے خرچ ہوئے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ یہ آپ
کا کاروبار ہے، کسٹمر کو زید کی دکان سے فراڈ ہوا تو وہ آپ کے پاس آگیا آپ بھی یہی کام کرتے ہیں اور
آپ اسے کہتے ہیں کہ میں 50 ہزار کا پیکیج دے رہا ہوں، دو آدمیوں کا ایک لاکھ ہو جائے گا، پیسے آپ بعد
میں دے دینا تو یہ صورت درست ہے۔ اور آپ اتنے ہی کا پیکیج بیچیں جو آپ کی لاگت ہے
ضروری نہیں، اپنا نفع رکھ سکتے ہیں اور اگر آپ کو نقصان ہوتا ہے تب بھی گاہک پر اس
کا بوجھ نہیں آئے گا۔
وَاللہُ
اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ
رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ٹھیکیدار
اگر اُجرت نہ دے تو اس کا سامان اٹھالینا کیسا؟
سوال:اگر ٹھیکیدار لیبر(Labor) کے پیسے کھاجائے تو کیا ٹھیکیدار کا
کوئی سامان اٹھا کر لے جاسکتے ہیں؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ
الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب:دریافت کی گئی صورت میں بہتر یہ ہے کہ ٹھیکیدار سے ہی کلیم (Claim) کریں
اس کے پاس جائیں اسے بار بار یاد دلائیں اور اس سے تقاضا کریں۔ورنہ اگر اس کو
بتائے بغیر اس کی چیز اٹھالیں گے تواول تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ جو چیز
آپ اٹھائیں وہ اتنی ہی مالیت کی ہو جتنے پیسے آپ کے باقی ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ
اس طرح چیز اٹھانے کو لوگ یہی کہیں گے کہ
آپ نے چوری کی ہے ، وہ یہ نہیں سمجھیں گے کہ جو پیسے دینا باقی رہ گئے تھے اس کے
عوض میں یہ چیز لی ہے، یوں آپ کے اوپر تہمت آئے گی۔ لہٰذا اس طریقے سے خود بخود
معاملہ ڈیل (Deal) نہ کریں یہی زیادہ بہتر ہے بلکہ جس کے پاس پیسے ہیں اسی سے
تقاضا کریں یوں چوری چھپے چیزیں لے جانے سے فساد کا دروازہ کھلے گا۔البتہ اصل حکم
یہ ہے کہ اگر کسی نےدوسرے پر نکلنے والے اپنے مالی حق کو جائز راستے سے وصول کیا
تو آخرت میں اس پر گرفت نہ ہوگی۔ چنانچہ فتاویٰ رضویہ جلد اول پر حاشیہ میں موجود
فوائدکے تحت یہ مسئلہ لکھا ہے:”جس کے کسی
پر مثلاً سو روپے آتے ہوں کہ اس نے دبالئے یا اورکسی وجہ سے ہوئے اور اسے اس سے
روپیہ ملنے کی امید نہیں تو سو روپے کی مقدار تک اس کا جو مال ملے لے سکتا ہے۔آج
کل اس پر فتویٰ دیا گیا ہے مگر سچے دل سے
بازار کے بھاؤ سے سو ہی روپے کا مال ہو، زیادہ ایک پیسہ کا ہو تو حرام دَر حرام
ہے۔“(فتاویٰ
رضویہ،ج 1،ص 167)
وَاللہُ
اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ
رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
رقم یا
وزن راؤنڈ فگر میں نہ ہو تو دکانداروصول کرے یا چھوڑ دے؟
سوال:ہمارا مچھلی کا کاروبار ہے اب کوئی مچھلی لینے آتا ہے
تو 15 کلو سے اوپر مثلاً550 گرام ہوتا ہے یا اوپر 100 گرام ہوتا ہے تو وہ پورے کے پیسے دے دیتا ہے، لیکن اگر اوپر 70 یا
75 گرام ہو تو اس کے پیسے وہ نہیں دیتا تو کیا میں اضافی گرام کے پیسے وصول کروں
یا چھوڑ دوں ؟اور اگر 70 گرام زیادہ ہو تو کیا میں 100 گرام کے پیسے وصول کر سکتا
ہوں؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ
الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب:دکاندار کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ ایک گرام کے
پیسے بھی گاہک سے طلب کرے، لہٰذا چاہے اضافی 10 گرام ہو، 100 گرام ہویا 200
گرام،دکاندار گاہک سے اس کے پیسے مانگ سکتا ہے لیکن اگر گاہگ دکاندار سے یہ کہتا ہے کہ یہ اضافی پیسے چھوڑدو اور دکاندار بھی اس پر راضی ہو جاتا ہے تو یہ بھی درست ہے۔البتہ 70 گرام ہونے کی صورت میں پورے 100
گرام کے پیسے لینا گاہک کی مرضی کے بغیر جائز نہیں ۔
وَاللہُ
اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ
رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
پرانا
اسٹاک نئے ریٹ پر بیچنا کیسا؟
سوال:میرا اسکول یونیفارم کا
کارخانہ ہے میرے پاس اسٹاک پڑا رہتا ہے کپڑے کا ریٹ بڑھا ہے تو کیا میں یونیفارم
نئے ریٹ پربیچ سکتا ہوں ؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ
الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب:جو مال آپ کے پاس رکھا ہوا
ہے وہ آپ کا اپنا مال ہے اپنے مال کو کوئی شخص سستا بیچے یا مہنگا بیچے اس کا اسے
اختیار ہے لیکن اتنی قیمت پر بیچیں کہ لوگوں کے لئے قابل برداشت ہو، بہت زیادہ
مہنگا بیچنا اخلاقیات کے خلاف ہے۔ آپ اگر اپنا پرانا اسٹاک نئے مارکیٹ ریٹ پر بیچتے ہیں تو اس میں حرج نہیں۔ اعلیٰ
حضرت امامِ اہلِ سنّت علیہ الرَّحمہ لکھتے ہیں:”اپنے مال کا
ہر شخص کو اختیارہے چاہے کوڑی کی چیز ہزار روپیہ کو دے، مشتری کو غرض ہو لے ،نہ ہو
نہ لے۔“(فتاویٰ
رضویہ،ج 17،ص98)
وَاللہُ
اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ
رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حکوت
کی طرف سے مقرر کئے گئے ریٹ کی پابندی
سوال:کیا
فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ آپ نے فرمایا اپنی چیز ہو تو جتنے
پیسے مناسب سمجھیں اس میں بیچ سکتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب زیادہ پیسوں میں بیچتے ہیں تو حکومتی ادارے جرمانہ لگادیتے ہیں۔ اس کے بارے میں کیا حکم
ہے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ
الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب:ہم نے ایک شرعی حکم بیان
کیا ہے۔ جہاں تک حکومت کی طرف سے ریٹ فکس کرنے کی بات ہے تو حکومت ہر چیز کا ریٹ
فکس نہیں کرتی، مثال کے طور پر کپڑوں کا ریٹ فکس نہیں ہوتا، عام طور پر کھانے پینے
کی اشیاء کا ریٹ مقرر ہوتا ہے، پیٹرول کا ریٹ مقرر ہوتا ہے، دواؤں کا ریٹ مقرر
ہوتاہے اور اس کی خلاف ورزی پر پکڑ دھکڑ
ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اکثر چیزوں میں مارکیٹ میں آزادی ہوتی ہے ہر چیز کی قیمت حکومت مقرر نہیں کرتی۔ جن چیزوں
میں حکومت پکڑ دھکڑ کرتی ہے وہاں تو ہم پابند ہیں کیونکہ اپنے آپ کو ذلت پر پیش
نہیں کر سکتے لہٰذا قانون کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں بلکہ وہاں پر قانون کی پاسداری کرنا لازم ہوگا۔
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت علیہ الرَّحمہ لکھتے
ہیں:”کسی جرمِ قانونی کا ارتکاب کرکے اپنے آپ کو ذلت پر پیش کرنا بھی منع ہے۔“(فتاویٰ رضویہ،ج29،ص93)
وَاللہُ
اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ
رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…دارالافتااہل
سنت نور العرفان ،کھارادر،باب المدینہ کراچی
Comments