اَز:امیرِ اہلِ سنّت
حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادی رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ
ہمارے مکّی مَدَنی آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک سیرت سے گھریلوکام کاج میں ازواجِ مطہرات کا ہاتھ
بٹانا ثابت ہے۔ اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدَتُنا عائشہ صدّیقہ رضی
اللہ عنہا فرماتی ہیں: نبیِّ اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے گھر کے کام کاج میں مشغول
رہتے تھے پھر جب نماز کا وقت آجاتا تو نماز کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔(بخاری،ج 1،ص241، حدیث:676) حضورِ انور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم گھر کے
کسی کام میں تکلُّف نہ فرماتے، اپنی ازواجِ مطہرات کے ساتھ گوشت کے ٹکڑے کرلیا
کرتے، بکری کادودھ دوہ لیتے، اپنے کپڑوں کی نگہداشت فرماتے، انہیں دھولیتے، کپڑوں
میں پیوند لگا لیتے اور اپنی نعلین شریفین گانٹھ لیتے، سواری کے جانور کو باندھ
لیتے، اسے چارا وغیرہ ڈال لیتے تھے۔ معلوم ہوا کہ گھر میں کام کرلینا صالحین کا
طریقہ ہے، لہٰذا کسی جائز کام میں تکلُّف نہیں ہونا چاہئے۔(مسند احمد،ج 9،ص386، حدیث:24685، مدارج النبوۃ،ج1،ص42،مراٰۃ المناجیح،ج8،ص84ملخصاً)
پیارے
اسلامی بھائیو! اگر کوئی مرد اپنے گھر میں کام کاج کرے یا گھریلو کام میں اپنی
بیوی کے ساتھ تعاون کرےتویہ کوئی بُری چیز نہیں، نہ ہی کوئی عیب کی بات ہے، دَراَصل
ہمارامعاشرہ عجیب و غریب ہے کہ اگر عورت سے زیادہ کام کرواؤ تو بھی بولتا ہےکہ
عورت کو کام کی مشین سمجھ رکھا ہے، بے چاری کوسکون ہی نہیں دیتا اور اگر کوئی مَرد
گھر کے کام میں اس کا ساتھ دیتا ہے تو اسے ”زَن مُرید“اور ”بیوی کا غلام“ جیسے طعنے
دیئے جاتے ہیں۔
پیارے اسلامی بھائیو! اس طرح کی باتوں پر توجہ دینے کی بجائے ہمیں اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احکام کی جانب نظر کرنی چاہئےاور انہیں پر عمل کرنا چاہئے۔ بیوی بھی اللہ کی مخلوق ہے، وہ صرف اس لئے نہیں ہوتی کہ جھاڑو پوچا کرے، کھانا پکائے، برتن دھوئے، لہٰذا مِل جُل کر گھر کے کام کرنے چاہئیں، میں حتَّی الاِمکان کبھی بھی اپنے گھر میں یہ نہیں کہتا کہ دسترخوان بچھاؤ! اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ خود ہی اُٹھاکر بچھا لیتا ہوں، بعض اوقات کچھ مصروفیت کی وجہ سے تھکاوٹ بھی ہوتی ہے اور میری عمر بھی ایسی ہے کہ اٹھنا بیٹھنا بھی کبھی دُشوار ہوجاتا ہے، لیکن یہ سوچ کر کہ جس طرح اُٹھنےبیٹھنےمیں مجھےتکلیف ہوتی ہے تو عمر کے حساب سے اُسے بھی ہوتی ہوگی، حالانکہ مجھے یہ بھی پتا ہوتا ہے کہ اگر میں بولوں گا تو اُس نے منع نہیں کرنا بلکہ اٹھا کر بچھانا ہی ہے، لیکن اِس سے پہلےکہ وہ اُٹھے عام طور پر میں لپک کر اُٹھالیتا اور بچھالیتاہوں،یہ بات ترغیب کے لئے عرض کررہا ہوں، بتائیے اِس سے میری عزّت میں کیا فرق آیا؟ جس کا کام تنقید کرنا ہے اس نے تو اپنا کام کرنا ہی ہے، لہٰذا آپ اپنا کام کئے جائیں۔اللہ پاک ہمیں پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّتوں پر عمل کی توفیق عطافرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
Comments