وہ بزرگانِ دین جن کایومِ وصال/عرس ذوالقعدۃ الحرام میں ہے

ذُوالقعدۃُ الحراماسلامی سال کا گیارھواں (11)مہینا ہے۔ اس میں جن صَحابَۂ کرام، اَولیائے عظام اور علمائے اسلام کا وِصال یا عُرس ہے، ان میں سے40کا مختصر ذکر ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ذوالقعدۃ الحرام1438ھ اور1439ھ کے شماروں میں کیا گیا تھا مزید 15کا تعارف ملاحظہ فرمائیے:

صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان (1)حضرتِ سیّدُنا سائب بن حارث سَہْمی قرشی رضی اللہ عنہ قدیمُ الاسلام صَحابی، ہجرتِ حبشہ ثانیہ اور جنگِ طائف میں شرکت کی، جنگِ فِحْل میں ذوالقعدۃ الحرام13ھ کو سَوَادُ الاُرْدُن (طَبقۃُ الفِحْل) میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔(طبقاتِ ابنِ سعد،ج 4،ص148)

اولیائے کرام رحمہمُ اللہ السَّلام (2)حضرت سیّدُنا اَشْعَث بن قیس کِندِی رضی اللہ عنہ 10ھ میں اسلام لائے، یمن کے رہائشی، اپنے قبیلے کے معزز فرد، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بہنوئی، کئی جنگوں میں حصّہ لینے والے مجاہد، آذربیجان کے عامل اور کئی احادیث کے راوی ہیں۔ کوفہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے چالیس(40) دن بعد (پہلی یا 2ذوالقعدۃ الحرام) 42ھ کو وِصال فرمایا اور نمازِجنازہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ (اسد الغابۃ،ج 1،ص151،152) (3)امامِ سجّاد سیّدُنا علی بن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم بنو ہاشم کے چشم و چراغ، نہایت حسین و جمیل، بلند قامت، بارُعب، عظیم تابعی، راویِ حدیث اور تاجر ہونے کے باوجود بہت زیادہ عبادت کرنے والے تھے، روزانہ ایک ہزار رکعت پڑھتے تھے، آپ کی پیدائش 17رمضانُ المبارَک40ھ اور وفات ذوالقعدۃ الحرام117 یا 118ھ کو ہوئی۔(وفیات الاعیان،ج 3،ص239 تا243) (4)قطبِ وقت حضرت خواجہ ابوالفیض ذوالنّون ثَوْبان مصری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت اِخْمِیم مصر میں ہوئی۔ 2ذوالقعدۃ الحرام 245ھ میں تقریباً 90سال کی عمر میں وصال فرمایا۔ مزار مبارک قاہرہ سے20 کلو میٹر جِیزہ شہر میں زیارت گاہِ عوام و خواص ہے۔ آپ جیّد عالِم، محدث اور صاحبِ کرامت ولیُّ اللہ ہیں۔(شذرات الذھب،ج 2،ص242، المنتظم،ج 11،ص344، سیر اعلام النبلاء،ج 10،ص17،19) (5)سلطانُ الاصفیاء حضرت میراں شاہ قمیص الاعظم قادری رحمۃ اللہ علیہ خاندانِ گیلانیہ رزّاقیہ کے چشم و چراغ، ولیِ کامل اور کثیرُالبرکات تھے۔ آپ کی پیدائش 897ھ کو بنگال میں ہوئی اور وصال3ذوالقعدۃ الحرام992ھ کو فرمایا۔ مزار ساڈھورا خضرآباد (ضلع انبالہ مشرقی پنجاب) ہند میں ہے۔ حضرت قطبِ عالَم پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہآپ کے ہی خاندان سے ہیں۔(انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام،ج1،ص124) (6)سلطانُ العارفین حضرت شاہ عبدالکریم بُلْڑی وارو رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش944ھ اور وفات7ذوالقعدۃ الحرام1023ھ میں ہوئی، آپ کا تعلق پاکستان کے صوبہ بابُ الاسلام سندھ کے متعلوی سادات گھرانے سے تھا، آپ شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کے جدِّ امجد، معروف صوفی بزرگ اور سندھی زبان کے شاعر تھے۔ مزار موضع سعید پور (تحصیل شاہ عبد الکریم ضلع ٹنڈو محمد خان) بابُ الاسلام سندھ میں واقع ہے۔(تذکرہ اولیائے سندھ، ص229تا233) (7)باباجی سرکار حضرت خواجہ محمد قاسم صادق موہڑوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت تقریباً1242ھ کو ہوئی اور وصال13ذوالقعدۃ الحرام1362ھ کو ہوا۔ آپ کا مزارِ پُرانوار ”موہڑہ شریف“ نزد کوہِ مری، ضلع راولپنڈی (پاکستان) میں مَرْجَعِ خلائق ہے۔ آپ عالمِ دین، مدرس اور سلسلۂ نقشبندیہ کے عظیم شیخِ طریقت ہیں، آپ کے خُلَفا نے گھمکول شریف، نیریاں شریف، کوٹ گلہ شریف سمیت کئی خانقاہیں قائم فرمائیں۔(تذکرۂ اکابرِاہلِ سنّت، ص502) (8)پیرِطریقت حضرت مولانا قاضی خان محمد چشتی رحمۃ اللہ علیہ موہڑہ امین (تحصیل گوجر خان ضلع راولپنڈی) میں پیدا ہوئے، آپ عالمِ دین، مدرسِ درسِ نظامی اور حضرت پیر سیّد غلام حیدر شاہ جلالپوری رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے، آپ کا وصال 9ذوالقعدۃ الحرام1350ھ کو ہوا، مزار جائے پیدائش میں ہے۔(معارف رضا، سالنامہ 2007ء، ص220) (9)فیضُ العارِفین حضرت مولانا شاہ غلام آسی پیا حسنی جہانگیری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت سیدپور (ضلع بلیایوپی ہند) میں 1917ء کو ہوئی، آپ فاضلِ مَدْرسہ مظہرُالعلوم بریلی شریف، شیخُ الحدیث و بانیِ مدرسہ شمسُ العلوم تاجپور (ناگپور)، خلیفۂ قطبِ مدینہ و مفتیِ اعظم ہند و خواجہ حسن شاہ جہانگیری اور نعت گو شاعر تھے۔ آپ کا وصال 9ذوالقعدۃ الحرام1424ھ کو ہوا۔ مزار مدھ پور شریف اترالہ (ضلع بلرامپور یوپی) ہند میں ہے۔(معارف رضا، سالنامہ2006ء، ص220،221)

علمائے اسلام رحمہمُ اللہ السَّلام (10)مُؤرّخِ اسلام حضرت امام ابو عبداللہ محمد بن عمر واقدی مدنی رحمۃ اللہ علیہ تبع تابعی، تلمیذِحضرت امام مالک، قاضیِ بغداد، استاذِ حضرت بشر حافی اور تاریخ و سیر میں امام و حُجّت ہیں۔ 130ھ کو مدینۂ منوّرہ میں پیدا ہوئے اور 11ذُوالقعدۃُ الحرام 207ھ کو بغداد میں وفات پائی۔ خیزران کے قبرستان میں دفن کئے گئے۔ ”فتوح الشام“ اور ”مغازی الواقدی“ آپ کی کتب ہیں۔(وفیات الاعیان، 4/158، 159) (11)حافظُ الحدیث حضرت ابوزکریا یحییٰ بن مَعِین بغدادی رحمۃ اللہ علیہ مشہور امام، عالم، محدِّث اور اپنے ہاتھ سے 6ہزار احادیث تحریر کرنے کا اعزاز پانے والے تھے۔ ”تاریخِ ابنِ مَعِین“ آپ کی اہم کتاب ہے۔ 23ذوالقعدۃ الحرام233ھ کو مدینۂ مُنوّرہ میں وفات پائی۔(وفیات الاعیان،ج5،ص113تا 116) (12)محدِّثِ حنفیہ حضرت امام ابوجعفر احمد بن محمد طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش طحا (صوبہ المنیا) بالائی مصر میں239ھ کو ہوئی اور وصال پہلی ذوالقعدۃ الحرام321ھ کو ہوا، مزار قرافہ قبرستان قاہرہ مصر میں ہے۔ آپ محدث، فقیہ، علم و تقویٰ کے پیکر، حق گو، مؤثر شخصیت کے مالک، ”شرح معانی الآثار“اور ”العقیدۃ الطحاویہ“سمیت کثیر کتب کے مصنف ہیں۔(سیراعلام النبلاء،ج11،ص505، المنتظم،ج13،ص318) (13)امام النحو حضرت زینُ الدّین یحییٰ زواوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ 564ھ کو پیدا ہوئے اور آخر ذوالقعدۃ الحرام628ھ کو قاہرہ مصر میں وفات پائی، مزارِ امام شافعی کے قریب شَفِیرُالْخَنْدَق میں دفن کئے گئے۔ آپ نحو و لغت اور ادب میں اپنے زمانے کے امام تھے۔ کافی عرصہ شام میں خدمتِ علم میں عمر گزاری پھر جامِعُ العتیق مصر میں ادب کے استاذ رہے۔(وفیات الاعیان،ج 5،ص163) (14)استاذُالعلماء حضرت مولانا قاضی محی الدّین غلام گیلانی شمس آبادی رحمۃ اللہ علیہ 1285ھ میں شمس آباد (تحصیل حضروضلع اٹک) پنجاب میں پیدا ہوئے۔ آپ فاضل مدرسہ عالیہ رامپور، مبلغِ اسلام، مُناظرِ اہلِ سنّت، سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ کے پیرِطریقت اور کئی کتب و رسائل کے مصنف تھے۔ اپنے آبائی علاقے کے علاوہ گجرات ہند اور بنگال میں خدمتِ دین کی سعادت پائی۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے خاص تعلق تھا، کئی مرتبہ بریلی تشریف لے گئے۔ آپ کا وصال 24ذوالقعدۃ الحرام 1348ھ کو مقامِ پیدائش میں ہوا، یہاں کے بڑے قبرستان میں دفن کئے گئے۔(معارف رضا، شمارہ دہم 1990ء، ص125تا135) (15)استاذُالعلماء حضرت مولانا عبدالمجید آنولوی قادری رحمۃ اللہ علیہ 1872ء کو قصبہ آنولہ (ضلع بریلی یوپی) ہند میں پیدا ہوئے۔ آپ حافظِ قراٰن، فاضل مدرسہ قادریہ بدایوں، خلیفہ شبیہِ غوثِ اعظم شاہ علی حسین اشرفی رحمۃ اللہ علیہ، بانیِ مدرسہ منظرِحق ڈنڈا (ضلع فیض آباد یوپی)، حُسنِ ظاہری و باطنی کے جامع اور سینکڑوں عُلَما کے استاذ ہیں، ذوالقعدۃ الحرام1362ھ میں وصال فرمایا، تدفین درگاہ ابوالعلا اکبر آبادی آگرہ (یوپی) ہند میں ہوئی۔(حیات مخدوم الاولیاء محبوب ربانی، ص342)


Share