دوران حج و عمرہ کی جانے والی غلطیاں

حج اسلام کا ایک اَہَم رُکن ہے، حج کے موقع پر لاکھوں مسلمان احرام کی حالت میں جمع ہوتے ہیں، ہرمسلمان کی زبان پر لَبَّیْک کی صدا ہوتی ہے، لاکھوں انسان دیوانہ وار کعبے کے گرد چکر لگاتے ہیں، صفا و مَروَہ کے درمیان سَعی کرتے ہیں، ایک خاص تاریخ (یعنی 9ذو الحجّۃ الحرام) کو مخصوص مقام پر (یعنی میدانِ عَرَفات میں) پورا شہر آباد ہوتا ہے، اَلغرض یہ ایک بڑا ہی پُرکیف موقع ہوتا ہے، تاہم اس مُقدّس فریضے کی ادائیگی میں ایک تعداد لا عِلمی میں غلطیاں کرتی ہے۔ ذیل میں ان غلطیوں کی نشاندہی کی جارہی ہے تاکہ حج و عمرہ کو غلطیوں سے پاک اور محفوظ بنایا جاسکے۔

حالتِ احرام کی غلطیاں

٭حالتِ احرام میں خوشبو لگانے اور کوئی خوشبودار چیز مثلاً لونگ، اِلائچی وغیرہ کھانے سے بہت زیادہ بچنے کا حکم ہے، بعض اوقات بیلٹ کی جیب میں عِطْر کی شیشی ہوتی ہےاور جیب میں ہاتھ ڈالنے کے سبب عطر ہاتھوں میں لگ جاتا ہے، خوشبو اگر زیادہ لگ گئی تو دَم([1]) اور کم لگی تو صَدَقہ([2]) لازم ہوگا۔یوں ہی اِحرام کی نیّت کے بعد گلاب کا ہار پہن لیا جاتا ہے حالانکہ گلاب کا پھول خالص خوشبو ہے، اگر اس کی مَہَک لباس میں بس گئی اور کثیر(زیادہ) ہے اور چار پہر یعنی بارہ گھنٹے تک اس کپڑے کو پہنے رہا تو دم ہے  ورنہ صدقہ اور اگر خوشبو تھوڑی ہے  اور کپڑے میں ایک بالشت  یا اس سے کم (حصے) میں لگی ہے  اور چار پہر تک اسے پہنا رہا تو صدقہ  اور اس سے کم پہنا تو ایک مٹھی گندم دینا واجب ہے۔ اور اگر خوشبوقلیل(یعنی تھوڑی) ہے لیکن بالشت سے زیادہ حصے میں ہے،  تو کثیر (یعنی زیادہ) کا ہی حکم ہے یعنی چار پہر میں دم  اور کم میں صدقہ اور  اگر یہ ہار پہننے کے باوجود  کوئی مہک کپڑوں میں نہ بسی  تو کوئی کفارہ نہیں۔

٭حالتِ احرام میں اوپر کی چادر بعض اوقات اس طرح دُرُست کی جاتی ہے کہ اپنے یا کسی دوسرے مُحْرِم کے سر اور چہرے پرلگتی بلکہ بعض اوقات تو اوڑھنے والے کے پورے سر کو چھپالیتی ہے اورکبھی دیگر مُحْرِموں کے مُنڈے ہوئے سر اس میں پھنس جاتے  ہیں۔ بعض چھتری لے کر طواف کرتے ہیں جو دوسرے مُحْرِم کے سر پر لگتی رہتی ہے۔ یوں ہی اسلامی بہنیں پی کیپ نقاب لگاتی ہیں اور نقاب ان کے چہرے پر مَس (Touch) ہورہا ہوتا ہے اور بعض اوقات تیز ہوا چلنے پر چہرے سے چپک بھی جاتا ہے۔ یاد رکھئے!  کپڑے سے سر اور چہرے کو بچانے میں احتیاط نہ کی جائے تو بعض صورتوں میں دَم اور بعض میں صدقہ لازم ہوسکتا ہے، اب خواہ کپڑا جان بُوجھ کر لگے یا بھول کر یا کسی دوسرے کی غلطی کے سبب۔

طواف میں کی جانے والی غلطیاں

٭دورانِ طواف حاجی صاحبان کی ایک تعداد کی پیٹھ یا سینہ کعبۂ مُشرّفہ کی جانب ہوتا رہتا ہے۔ یاد رکھئے! طَواف میں سینہ یا پیٹھ کئے جتنا فاصِلہ طے کیا اُتنے فاصلے کا اِعادہ یعنی دوبارہ کرنا واجِب ہے اور افضل یہ ہے کہ وہ پھیرا ہی نئے سِرے سے کرلیا جائے لیکن اگر اِعادَہ نہ کیا اور مکّے سے چلے آئے تو دَم لازم ہے۔ اعادہ نہ کرنے پر دم لازم ہونے کا حکم طواف زیارت اور طواف عمرہ میں ہے جبکہ طواف رخصت اور طواف نفل میں اعادہ نہ کیا تو ایک صدقہ لازم ہوگا۔

٭اعضاءِستر کا چھپانا تمام حالات میں اور بِالخصوص طواف میں بہت ضروری ہے ورنہ بعض صورتوں میں دَم لازم ہوجائے گا۔  اسلامی بہنوں کو اس معاملے میں بہت احتیاط کی حاجت ہے  کہ بعض اوقات حجرِ اَسود کا اِسْتِلام کرتے وقت چوتھائی کلائی اور کبھی تو پوری کلائی کھل جاتی ہے۔ اسی طرح کبھی بِھیڑ کے سبب اسکارف سَرَک جاتا ہے جس سے سر کے کچھ بال ظاہر ہوجاتے ہیں۔

 ٭بعض حاجی صاحبان طواف میں تیز آواز سے دعائیں پڑھتے ہیں، یاد رکھئے!اتنی اونچی آواز سے پڑھنا جس سے دیگر طواف کرنے والوں یا نمازیوں کو تشویش یعنی پریشانی ہو مکروہِ تحریمی، ناجائز و گناہ ہے۔یہاں وہ حضرات غور فرمائیں جن کے موبائل فونز سے دورانِ طواف ٹُونز بجتی رہتی اور عبادت گزاروں کو پریشان کرتی رہتی ہیں ان کو چاہئے کہ توبہ کریں۔

وُقوفِ عَرَفہ میں کی جانے والی غلطی

 ٭وُقوفِ عَرفہ حج کا رُکنِ اعظم ہے، اس میں ایک بہت بڑی غلطی یہ کی جاتی ہے کہ میدانِ عَرَفات سے باہر وقوف کر لیا جاتا ہے اور جوشخص پورے وقت عرفات سے باہر رہا اس کا حج سرے سے ادا ہی نہیں ہوا لہٰذا اچّھی طرح دیکھ لیا جائے کہ وقوف میدانِ عرفات کی حُدود میں ہورہا ہے یا نہیں۔

حج و عمرہ کی مُتَفرّق غلطیاں

٭حج و عمرہ ادا کرنے والوں کی ایک تعدادمکّہ پہنچ کر  ایک عمرہ کرنے کے بعد مزید عمرے بھی کرتی ہے۔ ایک بار حَلْق ہوجانے کے باوجود دوبارہ بھی اُسْتَرہ لگوانا ضروری ہوتا ہے لیکن بعض صرف مشین پھروا لیتے ہیں اس طرح نہ تو حَلْق ہوتا ہے اور نہ ہی تَقْصیر اور احرام بَدَستور باقی رہتا ہے، لہٰذا اس بات کا لِحاظ رکھنا ضروری ہے۔

 ٭بعض صاحبان مکروہ وقت جیسے زوال کے وقت میں کم عِلمی کے باعث طواف کی نماز پڑھ لیتے ہیں۔ واضح رہے کہ مشہور تین مکروہ اوقات میں پڑھنے سے یہ نماز ذِمّے سے ختم نہیں ہوتی بلکہ بَدستور واجب رہتی ہے۔ اگر وطن واپس آگئے تو وطن میں ہی اس نماز کو دوبارہ پڑھنا ضروری ہے۔

٭جس طواف کے بعد سَعی ہو اس کے ساتوں پھیروں میں اِضْطِباع یعنی سیدھا کندھا کُھلا رکھنا سنّت ہے،تاہم طواف مکمل ہوتے ہی کندھا ڈھانپ لینا چاہئے لیکن ایک تعداد اِسی حالت میں ہی طواف کی نماز پڑھ لیتی ہے حالانکہ کندھا کُھلا رکھ کر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔

٭بعض حاجی صاحبان یوں تو ہر جگہ دَندناتے پھرتے ہیں لیکن معمولی سی بیماری کے سبب دوسروں سے رَمْی کروا لیتے ہیں، اسی طرح مرد بِلاعُذْر عورتوں کی طرف سے رَمْی کردیا کرتے ہیں اور چونکہ رمی واجب ہے لہٰذا ترکِ واجب کے سبب اسلامی بہنوں پر دَم واجب ہوجاتا ہے لہٰذا اسلامی بہنوں کے لئے ضروری ہے کہ اپنی رمی خود ہی کریں۔

 ٭بعض حضرات زیارت کے لئے طائف جاتے ہیں لیکن واپسی پر مِیقات سے عمرے کا اِحرام نہیں باندھتے جبکہ طائف میقات سے باہر ہے اور مکّۂ مُکرّمہ کی طرف میقات کے باہر سے آنے والے کے لئے عمرے کا اِحرام باندھنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر کوئی بغیر احرام باندھے میقات کے باہر سے آجائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ دوبارہ میقات جائے اور احرام باندھ کر آئے، اگر نہیں جاتا تو اس پر دَم لازم ہوگا۔

٭حج و عمرہ کرنے والے صاحبان کو چاہئے کہ وہ مکّے مدینے میں ٹھہر نے کی مدّت کا جَدوَل علمائے اہلِ سنّت کو بتا کر ان سے پوچھ لیں کہ ہمیں کہاں قَصْر پڑھنی ہے، کہاں نہیں، یونہی عَرَفات و مُزْدَلِفہ میں بھی پوری نماز پڑھنی ہے یا قَصْر کرنی ہے، بعض اوقات جہاں پوری پڑھنی ہوتی ہے وہاں قصر کی جارہی ہوتی ہے۔ لہٰذا اس معاملے میں توجّہ دینے کی ضرورت ہے۔

یہ بطورِ نمونہ چند غلطیاں پیش کی گئی ہیں، مزید تفصیلات کے لئے ”مکتبۃُ المدینہ“ کی مطبوعہ کتاب”بہارِشریعت حصہ6 ، ”رفیق الحرمین“اور ’’27 واجباتِ حج اور تفصیلی احکام‘‘ کا مُطالعہ کیجئے، اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ حج و عمرہ کے درمیان ہر قسم کی غلطیوں سے ہماری حفاظت فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم



1  یعنی ایک بکرا۔اس میں نر،مادہ، دنبہ،بَھیڑ،نیز گائے یا اونٹ کا ساتواں حصہ سب شامل ہیں۔

2   یعنی صدقۂ فطر کی مقدار۔آج کل کے حساب سے صدقۂ فطر کی مقدار 2 کلو میں 80 گرام کم گندم یا اس کا آٹا یا اس کی رقم یا اس کے دُگنے جَو یا کھجور یا اس کی رقم ہے۔


Share