قراٰنی تعلیمات
فلاح و کامیابی کے قراٰنی اصول
*مولانا ابوالنّور راشد علی عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری 2025
توحید و رسالت کی طرح مسلمان کا بنیادی اور اہم ترین عقیدہ ”عقیدۂ آخرت اور حساب و میزان“ ہے۔عقیدۂ آخرت کے انسانی زندگی پر بہت گہرے اثرات ہیں۔ عقیدۂ آخرت پر جس قدر ایمان مضبوط ہوگا اور جس قدر اس کا تصور ذہن نشین رہے گا، بندہ حقوق اللہ اور حقوق العباد سبھی کے معاملے میں بہت احتیاط کرے گا۔ بندے کی ہر دم یہی کوشش و تمنا ہوگی کہ وہ آخرت میں اپنے کریم رب اور خالق و مالک کی بارگاہ میں کامیاب و سُرخرو ہوجائے اور فلاح پا جائے۔
قراٰنِ کریم جو کہ کتابِ ہدایت ہے، اس میں کئی مقامات پر ایسے عقائد، اعمال اور اوصاف کا ذکر موجود ہے جو آخرت کی کامیابی اور فلاح کا ذریعہ بنتے ہیں۔
فلاح کا لفظ مختلف مشتقات کی صورت میں قراٰنِ کریم میں 40 بار آیا ہے، جن میں سے 23 بار مکی سورتوں میں اور 17بار مدنی سورتوں میں آیا ہے۔
فلاح کے لغوی و مرادی معنیٰ بیان کرتے ہوئے حکیم الامّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: فلاح کے لغوی معنیٰ ہیں چیرنا اور کھلنا اور قطع کرنا، اسی لیے کسان کو فَلّاح کہتے ہیں کیونکہ (وہ)زمین کو چیرتا ہے۔ اصطلاح میں فلاح کے معنیٰ ہیں ”کامیابی“ کیونکہ وہ بھی آڑوں اور پَردوں کو چیر کر مشکلات کو دفع کرکے حاصل کی جاتی ہے۔ معنیٰ یہ ہوئے کہ اس قسم کے لوگ دنیا اور برزخ اور آخر ت ہر جگہ کامیاب ہیں۔
خیال رہے کہ ہدایت و کامیابی سے مراد اگر دنیا کی ہدایت و کامیابی ہے تو معنیٰ یہ ہیں کہ یہ لوگ دنیا میں اچھے عقیدوں پر ہیں اور اچھے اعمال کی توفیق والے ہیں، امیری، فقیری، سلطنت وغیرہ ہر حال میں کامیاب ہیں۔ اگر برزخ کی ہدایت و فلاح مراد ہے تو معنیٰ یہ ہیں کہ مرتے وقت حسنِ خاتمہ اور قبر میں سوالات کے جوابات کی ہدایت پر ہیں پھر برزخی نعمتوں سے کامیاب ہیں۔ اگر قیامت کی ہدایت و فلاح مراد ہے تو مطلب یہ ہے کہ قیامت میں سوالاتِ ملائکہ کے جوابات کی ہدایت پالیں گے، پھر رب کی مغفرت سے کامیاب ہوں گے۔ ([i])
امام اللغۃ امام مرتضیٰ زبیدی رحمۃُ اللہِ علیہ تاج العروس میں لکھتے ہیں:فَلَيْسَ فِي كَلَام الْعَرَب كلِّه اَجمعُ من لفظَةِ الفلاحِ لخيرَىِ الدُّنيا وَالْآخِرَة یعنی کلامِ عرب میں فلاح کے علاوہ کوئی ایسا لفظ نہیں جو دنیا اور آخرت دونوں کی خیر کو جامع ہو۔([ii])
قراٰنِ کریم میں فلاح و کامیابی دلانے والے اعمال کا بیان دو انداز میں ہے، بعض مقامات پر کثیر اعمال و عقائد کو بیان کرکے ان کے فلاح و کامیابی کا سبب ہونا بیان کیا گیا ہے اور بعض مقامات پر کسی ایک یا دو اعمال کو اور کہیں ایک یا دو عقائد کو فلاح و کامیابی کا سبب و اصول فرمایا گیا ہے۔ آئیے !ذیل میں پڑھئے :
ایمان و عمل :سورۃ البقرۃ کے آغاز میں قراٰنِ کریم کو متقین کے لئے ہدایت فرمایا گیا ہے، ساتھ ہی متقین کی صفات بیان کی گئیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو بے دیکھے ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اللہ کے دیے ہوئے مال و رزق میں سے راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں، قراٰنِ کریم اور اس سے پہلی آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں، آخرت پر یعنی مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر یقین رکھتے ہیں۔ ایمانیات و اعمال کے یہ تمام پہلو بیان کرنے کے بعد اِن لوگوں کو ہدایت یافتہ اور فلاح پانے والے فرمایا گیا ہے۔([iii])
تقویٰ:زمانۂ جاہلیت میں لوگوں کی یہ عادت تھی کہ جب وہ حج کے لئے احرام باندھتے تو کسی مکان میں اس کے دروازے سے داخل نہ ہوتے، اگر ضرورت ہوتی تو گھر کی پچھلی جانب کی دیوار توڑ کر آتے اور وہ لوگ اسے نیکی سمجھتے تھے([iv])،اللہ کریم نے فرمایا کہ اصل نیکی تقویٰ ہے، چنانچہ درست یہی ہے کہ گھروں میں اصل دروازے ہی سےآؤ، اور فلاح و کامیابی کی طلب ہے تو تقویٰ اختیار کرو۔([v])
اس آیتِ کریمہ سے یہ بھی درس ملتا ہے کہ تقویٰ، پرہیزگاری، ذرائع ثواب و نجات وہی ہیں جو قراٰن و حدیث اور سلف صالحین نے بیان کئے ہیں، ناجائز، حرام اور فضولیات و لغویات کو ذرائع نجات و معرفت سمجھ لینا نِری جہالت ہے چنانچہ حکیم الامّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں:اس سے وہ مسلمان عبرت پکڑیں جو کہ نماز و روزے چھوڑ کر سینہ کوبی یا بھنگ چرس پینے یا آگ جلانے اس پر دھونی رما کر بیٹھنے یا آج کل کے حرام گانے بجانے کو قوالی کہہ کر انہیں اصل عبادت سمجھ بیٹھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سچی سمجھ نصیب کرے، ہمیں حق کو حق دکھائے اور باطل کو باطل۔([vi])
نیکی کی دعوت اور بُرائی سے ممانعت:فلاح و کامرانی کا ایک اصول ”نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا“ بھی ہے۔ قراٰنِ کریم نے امّتِ محمدیہ سے اس کا تقاضا کیا ہے کہ اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بُری سے منع کریں۔ پھر ان کی فلاح کو یوں بیان فرمایا کہ یہی لوگ مُراد کو پہنچے۔([vii])
تقویٰ پر مشتمل اعمال :قراٰنِ کریم نے اللہ سے ڈرنے اور تقویٰ اختیار کرنے پر مشتمل کئی ایسے اعمال کا بھی ذکر فرمایا ہے جو فلاح و کامرانی کا اصول اور ذریعہ ہیں جیسا کہ سود سے بچنے کے بارے میں فرمایا کہ ” اے ایمان والو سود دُونا دُون نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اُس امید پر کہ تمہیں فلاح ملے “([viii])
اسی طرح صبرکرنے، دشمنوں سے زیادہ صبر کرنے اور اسلامی سرحد کی نگہبانی کرنے کا حکم دیتے ہوئے تقویٰ کا حکم دیا گیا ہے، ترجمہ کنزالایمان: ” اے ایمان والو صبر کرو اور صبر میں دشمنوں سے آگے رہو اور سرحد پر اسلامی ملک کی نگہبانی کرو اور اللہ سے ڈرتے رہواس امید پر کہ کامیاب ہو۔“ ([ix])
یونہی سورۃ المآئدۃ میں ایمان والوں کو مخاطب کرکے تقویٰ کے ساتھ وسیلہ ڈھونڈنے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کا حکم دیا گیا اور اسے فلاح و کامرانی کا ذریعہ بتایا گیا۔
اسی طرح سورۃ التغابن میں اللہ سے ڈرنے اور حسب ِ استطاعت عبادت کرنے کے ساتھ اللہ و رسول کی اطاعت کرنے، راہِ خدا میں خرچ کرنے اور لالچ سے بچنے کو فلاح پانے کا ذریعہ بتایا گیا ہے جیسا کہ :” تو اللہ سے ڈرو جہاں تک ہوسکے اور فرمان سنو اور حکم مانو اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اپنے بھلے کو اور جو اپنی جان کی لالچ سے بچایا گیا تو وہی فلاح پانے والے ہیں“ ([x])
اسی طرح سورۃ المآئدۃ میں ہر حال میں حق ہی کو حق سمجھنے کی ترغیب دلائی اور اسے تقویٰ کا حصہ فرمایا گیا کہ ” ستھرا اور گندہ برابر نہیں (یعنی حلال و حرام، نیک و بد، مسلم و کافِر اور کھرا کھوٹا ایک درجہ میں نہیں ہو سکتا ) اگرچہ تجھے گندے کی کثرت بھائے تو اللہ سے ڈرتے رہو اے عقل والو کہ تم فلاح پاؤ۔([xi])
شیطانی اعمال سے بچنا:فلاح و کامرانی کا ایک اصول شیطانی کاموں سے بچنا بھی ہے، قراٰنِ کریم نے شراب، جوئے، شرک اور فالناموں کو شیطانی عمل قرار دیتے ہوئے ان سے بچنے کو لازم اور حصولِ فلاح کاذریعہ بتایا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ شیطان یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی ڈلوا دے اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روکے، ([xii]) اور ہم دنیا میں ایسے کئی واقعات و حادثات جانتے ہیں کہ جوئے کے باعث خودکشی اور قتل ہوگئے، شراب پی کر قتل کردیے، طلاق دے دی، فساد کیا، لڑائی جھگڑا کیا۔
نعمِ الٰہیہ کا ذکر و شکر کرنا:قراٰنِ کریم نے سورۃ الاعراف میں قومِ عاد کو مخاطب کرکے اللہ کی نعمتیں یاد کرنے اور مُنعِم حقیقی پر ایمان لانے، طاعات و عبادات بجا لانے اور اللہ ربّ العزّت کے احسان کی شکر گزاری کرنے کا فرمایا ہے اور اسے فلاح و کامیابی کا ذریعہ بتایا ہے۔([xiii])
کفر کے مقابل ثابت قدمی اور طلبِ مددِ الٰہی:فلاح و کامیابی کا ایک اصول ”کافروں کے مقابلے میں ثابت قدم رہنا اور اللہ سے مدد چاہنا اور غلبہ کی دعائیں کرتے ہوئے اللہ کو بہت یاد کرنا“ بھی ہے اس اصول سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ”انسان کو ہر حال میں لازم ہے کہ وہ اپنے قلب و زبان کو ذکرِ الٰہی میں مشغول رکھے اور کسی سختی و پریشانی میں بھی اس سے غافل نہ ہو۔“ ([xiv])
نماز اور عملِ صالح(صلہ رحمی و مکارمِ اخلاق):نماز صرف فاتحہ اور چند دعائیں پڑھنے اور رکوع سجود کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ خالقِ حقیقی و مالکِ ازلی کے حکمِ عظیم کی پیروی اور عبادات میں سے عظیم عبادت ہے اور فلاحِ ابدی کا معتبر ذریعہ ہے۔ قراٰن کریم میں اللہ کریم نے اہلِ ایمان کو بالخصوص مخاطب کرکے فرمایا کہ ” اے ایمان والو! رکوع اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی بندگی کرو اور بھلے کام کرو اس اُمید پر کہ تمہیں چھٹکارا ہو۔“([xv]) بھلے کاموں میں ”صلہ رحمی اور مکارمِ اخلاق وغیرہ نیکیاں“ شامل ہیں۔([xvi])
ایمان کے 7اہم اعمال:فلاح کا واضح مژدہ پانے والے اہلِ ایمان کی عملی تعیین سورۃ المؤمنون میں تفصیلاً ملتی ہے اور واضح ہوتا ہے کہ فلاح کے اصول و ذرائع کون کون سے ہیں، چنانچہ ابتداء میں فرمایا کہ ” بےشک مراد کو پہنچے ایمان والے “ اس کے بعد ان ایمان والوں کے ان اعمال کا بیان فرمایا ہے جو فلاح کا ذریعہ بنتے ہیں چنانچہ ”نمازوں میں خشوع و خضوع اپنانا، بیہودہ باتوں کی جانب التفات نہ کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بدکاری سے بچنا، امانت ادا کرنا، عہد پورا کرنا اور نمازوں کی پابندی کرنا “ فلاح پانے کے ذرائع ہیں۔([xvii])
شرم و حیا اور پردہ و عِفّت :سورۃُ النّور میں مسلمان مردوں اور عورتوں کو کچھ اعمال کا حکم دیا گیا ہے جن کے فلاح و کامرانی کا ذریعہ ہونے کی بشارت بھی دی گئی ہے ان اعمال میں ”نامحرم اور ناجائز و حرام دیکھنے سے بچنے کے لئے نگاہیں نیچی رکھنا، بدکاری سے بچنا، عورتوں کا اپنی زیب و زینت اور بناؤ سنگھار ناسمجھ بچوں، اپنے شوہر اور محرم رشتوں کے علاوہ سبھی سے چھپانا، چلنے میں پاؤں اور زیور کی آواز نہ کرنا اور اللہ کریم کی بارگاہ میں توبہ کرنا“ شامل ہے۔([xviii])
اللہ کی بکثرت یاد:اللہ کریم کو بکثرت یاد کرنا بھی فلاح و کامرانی کا سبب و ذریعہ بتایا گیا ہے، جیسا کہ فرض نماز کے وقت نماز ادا کرنے کا حکم ہے اور جب نماز ادا کرچکو تو اللہ کا فضل تلاش کرو یعنی معاش کے کاموں میں مشغول ہو یا طلبِ علم یا عیادتِ مریض یا شرکتِ جنازہ یا زیارتِ علماء اور اس کے مثل کاموں میں مشغول ہو کر نیکیاں حاصل کرو اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ رَبُّ العزّت کو خوب یاد کرو۔([xix])
فلاح و کامرانی کے مزید اصول اِن شآءَ اللہ اگلے ماہ کے شمارے میں شامل کریں گے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی
Comments