تاجر صحابہ کرام (قسط : 14)
گرمی پہ یہ بازار ہے عثمانِ غنی کا
* مولانا بلال حسین عطاری مدنی
ماہنامہ جولائی 2021ء
خلیفۂ ثالث ، امیرُ المؤمنین حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ زمانۂ جاہلیت سے ہی ایک معزّز ، سرمایہ دار اور تاجر شخص تھے۔ آپ کی تجارتی زندگی میں گندم اور کھجوروں وغیرہ کی تجارت ، شراکت داری اور تجارت کی غرض سے مصر کا سفر شامل ہے۔ آپ دینِ اسلام کی نُصرت و اِستحکام اور مسلمانوں کی خیر خواہی کے لئے موقع بموقع خَطِیر رقم (Huge Amount) خرچ کرتے رہے۔ [1]
جنّت کے خریدار :
حضرت عثمان غنی رضی اللہُ عنہ تاریخِ اسلام کی وہ عظیم ہستی ہیں جنہوں نے تین مرتبہ جنّت خریدی :
(1)ہجرت مدینہ کے بعد مسلمانوں کے لئے بئر رومہ خریدنے کے بدلے
(2)مسجد نبوی کی توسیع کے لئے ساتھ والی جگہ خریدنے کے بدلے اور
(3)غزوۂ تبوک کے موقع پر مسلمانوں کے بے سرو سامان لشکر کو سامانِ ضرورت (950 اُونٹ ، 50گھوڑے اور 11000اشرفیاں) فراہم کرنے کے بدلے۔ [2]
بازار میں مستحکم ساکھ (Excellent Reputation) :
مارکیٹ میں آپ کی ساکھ بہت مضبوط و مستحکم تھی ، تاجروں کو آپ کی زبان پر خوب اعتبار تھا خود بیان کرتے ہیں کہ میں بنی قَینُقَاع کے بازار سے کھجور خرید کر مدینے بھیجتا اور ان کو وزن بتادیتا ، وہ لوگ صرف میرے کہے پر انحصار کرتے ہوئے کھجوروں کا وزن کئے بغیر ہی مجھے طے شدہ نفع دے دیتے۔ البتہ جب نبیِّ رحمت ، مصلحِ اُمّت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اس بات کا پتا چلا تو آپ نے تنبیہ فرمائی کہ خريدتے بیچتے وقت ناپ تول کرلیا کریں (تاکہ کسی طرح کے فساد کا اندیشہ نہ رہے)۔ [3]
اسلام کے پہلے سلیپنگ پارٹنر (Sleeping Partner) :
آپ رضی اللہُ عنہ لوگوں کو مُضاربت پر مال دیا کرتے تھے ، آپ نے حضرت یعقوب جہنی رحمۃُ اللہ علیہ کو بطورِ مُضاربت آدھے نفع پر مال دیا جوکہ ایک قول کے مطابق زمانۂ اسلام کی سب سے پہلی مُضاربت (Excellent Partnership) تھی۔ [4]
تجارتی شراکت دار(Business Partner) :
آپ رضی اللہُ عنہ کی تجارتی سرگرمیوں میں شراکت داری پر کاروبار کرنا بھی شامل ہے ، آپ نے حضورِ اكرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چچا زاد بھائی حضرت رَبیعہ بن حارث رضی اللہُ عنہ کے ساتھ شراکت داری پر کاروبار کیا۔ [5]
اللہ خریدار ہے عثمان غنی کا :
ایک مرتبہ خلافتِ صدیقِ اکبر میں زبردست قحط پڑا ، ان دنوں آپ کا ایک ہزار اونٹوں پر مشتمل تجارتی قافلہ مدینے پہنچا جن پر کھانے پینے کی اشیاء لَدی ہوئی تھیں ، مدینے کے تاجر آپ کے پاس اچھے نفع کی پیشکش لئے موجود تھے مگر آپ نے لوگوں سے نفع کمانے کے بجائے اللہ ربُّ العزت سے تجارت کرتے ہوئے اُخروی ثواب کمانے اور قحط زدہ لوگوں کی خدمت کرنے کو ترجیح دی اور وہ کھانے پینے کا تمام سامان مدینۂ منوّرہ کے فقیروں پر صدقہ کردیا۔ [6]
شہادت :
امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ 18 ذوالحجہ سِن 35 ہجری کو بحالتِ روزہ بروز جمعہ عصر کی نماز کے بعد شہید ہوئے ، آپ کا مزارِ مبارک جنّتُ البقیع میں ہے۔ [7]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ذمہ دار شعبہ ماہنامہ فیضان مدینہ ، کراچی
[1] حسن المحاضرہ ، 1 / 176 ، مراٰۃ المناجیح ، 5 / 387
[2] کنزالعمال ، جز13 ، 7 / 44 ، حدیث : 36332 ، مراٰۃ المناجیح ، 8 / 395
[3] فتوح مصر والمغرب ، ص263
[4] طبقات ابن سعد ، 3 / 44 ، شرح الزرقانی علی المؤطا ، 3 / 473 ، تحت الرقم : 1433
[5] اسد الغابہ ، 2 / 249
[6] الریاض النضرہ ، 2 / 43ملخصاً
[7] معرفۃ الصحابہ ، 1 / 264 ، 271 ، معجم کبیر ، 1 / 77 ، الاصابہ ، 4 / 379
Comments