مشورہ اور اسلام
* محمد حامد سراج مدنی عطاری
ماہنامہ جولائی 2021ء
عقل اور ذہانت خدا کی دَین ہے۔ یہ اس کی تقسیم ہے کہ کوئی بندہ ذہانت کا مجسّم پیکر نظر آتا ہے ، کوئی اوسط یا کم درجہ کا ذہین ہوتا ہے۔ ذہانت کے اسی فرق کے سبب ایک انسان کسی مسئلہ کے مفید یا نقصان دہ پہلو کو پلک جھپکتے ہی سمجھ جاتا ہے جبکہ دوسرا اپنی عقل و فکر کو تھکا کر بھی نتیجہ تک رسائی نہیں پاتا اسی لئے اسلامی تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ انسان اپنی عقل و فہم کو ہی کامل نہ سمجھے بلکہ دوسروں سے مشورہ کر لے تاکہ بعد کی خجالت اور خسارہ سے بچا جا سکے۔ کئی مواقع ایسے بھی پیش آتے ہیں کہ کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے کے دونوں پہلو بظاہر برابر نظر آتے ہیں ، انسان فیصلہ نہیں کر پاتا کہ کام کے کس رخ کو اپنانے میں بھلائی ہے اور کس طرف نقصان اور بُرائی ہے؟ تذبذب کی ایسی صورتِ حال میں اسلام اپنے ماننے والے کو سکھاتا ہے کہ اپنی عقل و دانش پر اعتماد کر کے نقصان سے دوچار ہونے کے بجائے مشورہ کے دامن میں پناہ لی جائے۔ مشورہ خیرو برکت ، عروج و ترقی ، نزولِ رحمت اور وفورِ برکت کا ذریعہ ہے۔ اللہ کریم مشورہ کی برکت سے خیر کی راہیں کھول دیتا ہے اور اگر مشورہ کے بعد کیا جانے والا کام بار آور نہ بھی ہو اور حسبِ منشاء نتائج نہ بھی دے تب بھی بندہ لعن طعن اور شرمندگی سے بچ جاتا ہے۔
دینِ اسلام کی روشن تعلیمات میں مشورہ کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ اسلام میں مشورہ کی اہمیت کس قدر ہے اس کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ اللہ پاک نے خود اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مشورہ کرنے کا حکم دیا ، حالانکہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بڑا دانا اور عقل مند کون ہوسکتا ہے؟ جہاں بھر کی عقل و دانش آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عقل و دانش کے لاکھویں حصے تک بھی نہیں ، مشہور تابعی حضرت وہب بن منبہ رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : میں نے مُتَقَدِّمین کی 71کتابیں پڑھی ہیں ، ان تما م کتابوں میں یہی پایا کہ اللہ پاک نے دنیا کے آغاز سے لے کر دنیا کے انجام تک تما م لوگوں کو جس قدر عقلیں عطا فرمائی ہیں ان سب کی عقلیں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عقلِ مبارک کے مقابلے میں یوں ہیں جیسے دنیا بھر کے ریگستانوں کے مقابلے میں ایک ذرہ ہو۔ آپ کی رائے ان سب سے افضل و اعلیٰ ہے۔ [1] ایسی کمال عقل کے باوجود اللہ پاک نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مشورہ کرنے کا حکم دیا ، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : (وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ-) ترجَمۂ کنزُالایمان : اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔ [2] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) تفسیرقرطبی میں ہے : اللہ پاک نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اپنے اصحاب سے مشورہ کرنے کا حکم اس وجہ سے نہیں دیا کہ اللہ اور اس کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ان کے مشورہ کی حاجت ہے ، حکم دینے کی وجہ یہ ہے کہ انہیں مشورے کی فضیلت کا علم دے اور آپ کے بعد آپ کی اُمّت مشورہ کرنے میں آپ کی اتّباع کرے۔ [3]ایک روایت میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اللہ اور اس کے رسول کو مشورہ کی ضرورت نہیں ہے لیکن اللہ پاک نے مشورہ کو میری اُمّت کے لئے رحمت بنایا ہے۔ [4] نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خود بھی مشورہ فرماتے اور دوسروں کو بھی اس کا حکم دیتے ، آئیے! اسی بارے میں دوفرامینِ مصطفٰے پڑھتے ہیں :
(1)عقل مندوں سے مشورہ کرو کامیابی پالو گے اور ان کی مخالفت نہ کرو ورنہ شرمندگی پاؤ گے۔ [5]
(2)جو شخص کسی کام کا ارادہ کرے اور اس میں کسی مسلمان شخص سے مشورہ کرے اللہ پاک اسے دُرست کام کی ہدایت دے دیتا ہے۔ [6]
مشورہ سے متعلق کچھ آداب : مشورہ کس سے کرنا ہے اس بارے خوب غور و فکر سے کام لینا چاہئے اور مشورہ سے پہلے خوب سوچ لینا چاہئے کیونکہ ہرکس و ناکس ، ناتجربہ کار ، بَددین و بدخواہ وغیرہ سے مشورہ بہت ہی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ جس سے مشورہ کیا جائے اس کے لئے بھی لازم ہے کہ وہ اپنے بھائی کے حق کو سمجھتے ہوئے بہترین مشورہ دے ، نبی علیہ السّلام کا ارشاد ہے : جس نے اپنے بھائی سے مشورہ کیا اور اس نے ایسا مشورہ دیا کہ بھلائی اس کے علاوہ میں ہو تو اس نے مشورہ مانگنے والے کے ساتھ خیانت کی۔ [7]
کیا ہی اچھا ہو کہ آج مسلمان اس عظیم سنّت کی پیروی کریں جس میں ان کی سعادت ، خوش بختی اور معاشرے کی ترقی کا راز بھی پوشیدہ ہے اور ہزاروں دینی اور دنیاوی فائدے بھی!
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، شعبہ فیضان صحابہ و اہل بیت ، المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) ، کراچی
[1] صراط الجنان ، 10 / 257
[2] پ4 ، آلِ عمرٰن : 159
[3] قرطبی ، 4 / 192
[4] شعب الایمان ، 6 / 76
[5] فردوس الاخبار ، 1 / 62 ، حدیث : 273
[6] درمنثور ، 7 / 357
[7] ابوداؤد ، 3 / 449 ، حدیث : 3657 ملتقطا
Comments