ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی

اشعار کی تشریح

ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی

* مولانا راشد علی عطاری مدنی

ماہنامہ جولائی 2021ء

مومنیں پیشِ فَتح و پسِ فتح سب

اہلِ خیر و عدالت پہ لاکھوں سلام

الفاظ و معانی :

پیش : پہلے ، قَبل۔ پس : بعد ، پیچھے۔ فتح : کامیابی ، جیت ، مراد فتح ِ مکّہ۔ ا ہلِ خیر و عدالت : بھلائی والا اور عادل ہونا۔

شرح :

امامِ اہلِ سنّت ، مجدِّدِ اعظم ، اعلیٰ حضرت  رحمۃُ اللہِ علیہ  کا تحریر کردہ یہ شعر جہاں شہنشاہِ کائنات  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے تمام صحابۂ کرام  رضی اللہُ عنہم اجمعین  کی مشترکہ منقبت ہے ، وہیں ایک آیتِ قراٰنی کی طرف اِشارہ اور اسلامی عقیدے کا زبردست ترجمان بھی ہے۔ شعر کا مطلب یہ ہے کہ فتحِ مکہ سے پہلے اور بعد میں ایمان لانے والے نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے تمام ہی صحابہ اہلِ خیر و عدالت یعنی بھلائی والے اور عادل ہیں۔ ان سب نُفوسِ قُدسیہ پر لاکھوں سلام ہوں جن کی فضیلت و عدالت پر قراٰنِ مجید کی آیات اور شاہِ موجودات  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی سینکڑوں اَحادیث ناطق اور شاہد ہیں۔

 ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی :

قراٰنِ کریم میں حضور سیِّدُ المُرسلین ، خاتمُ النّبیین  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے پیارے صحابۂ کرام  رضی اللہُ عنہم اجمعین  کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک وہ جنہوں نے فتحِ مکّہ سے پہلے ایمان لاکر راہِ خُدامیں مال خرچ کیا اور جہاد کیا ، دوسرے وہ جنہوں نے فتحِ مکہ کے بعد یہ سب کچھ کیا۔ اگرچہ مقام و مرتبہ پہلے والوں ہی کا زیادہ ہے ، لیکن اللہ ربُّ العزت نے ان دونوں جماعتوں سے ہی جنّت کا وعدہ فرمالیا ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : (لَا یَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَؕ-اُولٰٓىٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْاؕ-وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۠(۱۰)ترجَمۂ کنزُ الایمان : تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتحِ مکہ سے قبل خرچ اور جہاد کیا وہ مرتبہ میں اُن سے بڑے ہیں جنہوں نے بعد فتح کے خرچ اور جہاد کیا اور ان سب سے اللہ جنّت کا وعدہ فرماچکا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔ [1]   (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اس آیتِ مبارَکہ میں تمام صحابۂ کرام سے “ اَلْحُسْنٰی “ کا وعدہ فرمایاگیاہے جس کا لفظی معنی “ بھلائی “ ہوتاہےلیکن یہاں اِس بھلائی سے مراد جنّت ہے ، جیسا کہ تفسیر کی معتبر اور مستند کتابوں میں موجود ہے۔ چند حوالے (References) ملاحظہ ہوں :

(1)تفسیرِ مَعالم ُالتّنزیل (تفسیرِبغوی) میں ہے : اَی : کِلَا  الْفَرِیْقَیْنِ وَعَدَھُمُ اللّٰہُ الْجَنَّۃَ یعنی اللہ تعالیٰ نے دونوں ہی

جماعتوں سے جنّت کا وعدہ فرمالیا ہے۔ [2]

(2)تفسیرِ مدارِکُ التنزیل (تفسیرِ نسفی) میں ہے : ھِیَ الْجَنَّۃُ مَعَ تَفَاوُتِ الدَّرَجَاتِ یعنی الْحُسْنٰی “ سے مراد درجات و مراتب کے فرق کے ساتھ جنّت ہے۔ [3]

(3)تفسیرِ جلالَین میں ہے : الْجَنَّۃ۔ یعنی “ الْحُسْنٰی “ سے مراد جنّت ہے۔ [4]

المختصر آیتِ مبارَکہ میں صحابۂ کرام  رضی اللہُ عنہم اجمعین  کا ذکر ہے اورکلمۂ “ کُلًّا “ کا ترجمہ موقع محل کے اعتبار سے سب ، ہر یا تمام ہی کے لفظ سے ہوتاہے اور “ الْحُسْنٰی “ سے مراد جنّت ہے ، لہٰذا شیخِ طریقت ، امیرِ اہلِ سنّت علامہ محمد الیاس قادری  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  کی طرف سے اُمّت کو دیا گیا نعرہ “ ہر صحابیِ نبی جنّتی جنّتی “ گویا اس آیت ِ مقدَّسہ کا خوبصورت ترجمان ہے۔

سب صحابہ عادل اوراہل ِخیر ہیں :

نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے تمام صحابہ اہلِ خیر اور عادل ہیں۔ اختصار کے ساتھ تین اکابرینِ اُمّت کے فرامین ملاحظہ ہوں :

(1)شیخُ الاسلام امام محیُّ الدّین ابو زکریا یحییٰ بن شرف النَوَوی  رحمۃُ اللہِ علیہ  اس عقیدے اورحقیقت کویوں بیان فرماتے ہیں کہ اَلصَّحَابَۃُ کُلُّھُمْ عَدُوْلٌ یعنی سارے صحابہ عادل ہیں۔ [5]

(2) محقِّقِ اہلِ سنّت شیخ علی بن سلطان اَلقاری  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں : جمہور عُلَما کا یہی موّقِف ہے کہ اَنَّ الصَّحَابَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کُلَّھُمْ عَدُوْلٌ یعنی تمام ہی صحابۂ کرام عادل ہیں۔ [6]

 (3)صدرُالشّریعہ مفتی امجدعلی اعظمی  رحمۃُ اللہِ علیہ  اسلامی عقیدہ بیان فرماتے ہیں کہ “ تمام صحابۂ کرام  رضی اللہُ تعالیٰ عنہم  اہلِ خیر و صلاح ہیں اور عادل ، ان کا جب ذکر کیا جائے توخیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔ “ [7]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* مدرس جامعۃ المدینہ  فیضان اولیا ، کراچی



[1] پ27 ، الحدید : 10

[2] تفسیربغوی ، پ27 ، الحدید ، تحت الآیۃ : 10 ، 4 / 269

[3] تفسیر نسفی ، پ27 ، الحدید ، تحت الآیۃ : 10 ، ص1208

[4] تفسیرجلالین ، پ27 ، الحدید ، تحت الآیۃ : 10 ، ص449

[5] ارشاد طلاب الحقائق ، ص 68

[6] منح الروض الازھرشرح الفقہ الاکبر ، ص126

[7] بہارِ شریعت ، 1 / 252


Share

Articles

Comments


Security Code