تذکرۂ صالحین
فقیہِ اہلِ سنّت مفتی عبد الحلیم رضوی اشرفی رحمۃُ اللہِ علیہ رخِ حیات کی مختصر جھلکیاں
* مولانا محمد عطاء النبی حسینی مصباحی
ماہنامہ جولائی 2021ء
ایک انسان کی زندگی کے دو مرحلے بڑے اہم ہوتے ہیں : (1)آنا (2)جانا۔ جب انسان اس دنیا میں آتا ہے تو اعزہ و اقربا میں خوشیوں اور مسکراہٹوں کو بکھیر دیتا ہے اور جب جاتا ہے تو آہوں اور سسکیوں میں ماحول کو سوگوار کرجاتا ہے۔ آنے یا جانے کی خبر تو رشتے داروں اور آس پڑوس والوں میں خوشی یا غم کی لہر دوڑا دیتی ہے مگر کچھ ہستیاں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ جب اس دنیائے فانی میں اپنی حیاتِ مستعار کے ایام گزار کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملتی ہیں تو اپنے پیچھے ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد کو روتا چھوڑ جاتی ہیں ، ان ہستیوں کے گزر جانے پر ایک ایسا خَلا دکھائی دیتا ہے جس کا پُر ہونا بظاہر ناممکن نظر آتا ہے ان مقتدر اور معزز ہستیوں میں فقیہِ اہلِ سنّت ، سرپرستِ دعوتِ اسلامی(ہند) ، حضرت علّامہ مفتی عبدُ الحلیم صاحب رضوی اشرفی رحمۃُ اللہِ علیہ کا شمار بھی ہوتاہے ، 12رمضانُ المبارک 1442ھ کو دنیائے اہلِ سنّت کے فقیہ ، شمالی بِہار کی عظیم دینی ، علمی و انقلابی شخصیت حضرت علّامہ مفتی عبدُالحلیم صاحب رضوی اشرفی رات تقریباً نو بج کر پینتالیس منٹ پر دارِ فانی سے دارِ بَقا کی طرف کوچ فرماگئے۔ قبلہ مفتی صاحب کی وفات کی خبر دنیائے سنیت کے لئے رنج و اَلَم ، قلبی اضطراب اور آنکھوں کے برسنے کا سبب بن گئی۔ امتیازی شان کے حامل ، تقویٰ و پرہیزگاری میں کامل فقیہِ اہلِ سنّت مفتی عبدالحلیم رحمۃُ اللہِ علیہ اب ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ہمارے لئے مشعلِ راہ بننے والی حضرت کی یادیں ، حضرت کی باتیں ، حضرت کی علمی و عملی کاوشیں ضرور موجود ہیں ، قبلہ مفتی صاحب سے محبت و عقیدت کا تقاضا ہے کہ اب ان یادداشتوں کو محفوظ کیا جائے اور ان کے نقوشِ قدم کو اپنایا جائے۔ اسی جذبے کے تحت فقیہِ اہلِ سنّت رحمۃُ اللہِ علیہ کے مختصر حالات پیش کئے جارہے ہیں۔
ولادت اور نام و نسب :
حضرت فقیہِ اہلِ سنّت کی ولادت ضلع سیتا مڑھی کے ایک گاؤں ددری میں موجود ایک ایسے خاندان میں ہوئی جن کا عُلَما نوازی اور غربا پروری محبوب ترین مشغلہ تھا۔ آپ کا نام و نسب اس طرح ہے : فقیہِ اہلِ سنّت الحاج مفتی عبدالحلیم اشرفی رضوی بن محمد منیرالدین بن شیر علی بن (حوبت)حب علی بن رمضان علی بن امانت علی صدیقی۔
تعلیم و تربیت :
ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے ایک عالمِ دین سے حاصل کی۔ پھر ناصرُ الاسلام ، حامیُ السنن ، ممدوحِ اعلیٰ حضرت ، عارف باللہ مولانا شاہ عبد الرحمٰن محبّٰی رحمۃُ اللہِ علیہ کے قائم کردہ مدرسہ نورُ الہدیٰ میں داخلہ لیا۔ اس کے بعد 1953ء میں مفتی عزیزُالرّحمٰن صدیقی رضوی فیض پوری کے ایما پر منظرِ اسلام بریلی شریف تشریف لائے اور پورے انہماک کے ساتھ بقیہ تعلیم حاصل کی۔ آپ کی ذہانت و فطانت کو دیکھ کر اساتذہ ، آپ کی طرف خاطر خواہ توجہ فرماتے۔ آپ نے یہاں حضرت مولانا احمد انصاری مدنی پوری اور مفتی عزیزُ الرّحمٰن صدیقی رضوی فیض پوری سے میزان و منشعب ، نحومیر اور دیگر کتابیں پڑھیں۔
حضرت علّامہ ریحان رضا خان رحمانی میاں رحمۃُ اللہِ علیہ نے آپ کو شرح مأۃ عامل اور نفحۃ الیمن پڑھائی۔ شیخُ العلماء حضرت علّامہ غلام جیلانی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ نے مائۃ عامل فارسی کے اشعار پڑھائے۔ عمدۃُ المدرسین حضرت علّامہ مولانا نعیمُ الدّین احمد صدیقی رضوی گورکھپوری نے آپ کومشکاۃ ، جلالین وغیرہ کُتب پڑھائیں۔ استاذُ الاساتذہ حضرت علّامہ مولانا حافظ و قاری الحاج مفتی محمد احمد عرف جہاں گیر خاں فتح پوری رحمۃُ اللہِ علیہ سے علومِ عقلیہ اورعربی ادب کی کتابیں پڑھیں۔ بحرُ العلوم حضرت علّامہ مولانا مفتی سیّد افضل حسین مونگیری ، صدرُ المدرسین مدرسہ منظرِ اسلام رحمۃُ اللہِ علیہ سے فقہ میں مہارت حاصل کی۔ جامع علومِ عقلیہ و نقلیہ حضرت علّامہ الحاج محدث احسان علی مظفر پوری رحمۃُ اللہِ علیہ سے کُتب احادیث پڑھیں اور تکمیلِ درسِ نظامی کی سعادت پائی۔
بیعت وارادت اور اجازت و خلافت :
حضرت مفتی عبدالحلیم صاحب رحمۃُ اللہِ علیہ اپنے استاذ حضرت علّامہ احسان علی قادری رضوی محدثِ بہار رحمۃُ اللہِ علیہ کے حکم پر دورانِ تعلیم ہی مخدومِ ملت ، نور دیدۂ سرکارِ سمناں ، تلمیذِ اعلیٰ حضرت علّامہ مولانا مفتی الشاہ سیّد محمد اشرفی جیلانی المعروف محدثِ اعظم ہند کچھوچھوی رحمۃُ اللہِ علیہ کے دستِ حق پرست پر بریلی شریف میں سلسلہ عالیہ قادریہ چشتیہ اشرفیہ میں بیعت ہوئے۔ پیر و مرشد کے وصال کے بعد شہزادۂ اعلیٰ حضرت عارف باللہ حضور مفتیِ اعظم ہند رحمۃُ اللہِ علیہ کے مبارک ہاتھوں پر طالب ہوئے۔ اجازت و خلافت کی دولت حضور مفتیِ اعظم ہند ، قطبِ مدینہ حضرت ضیاءُ الدّین احمدرضوی ، سرکار مجاہدِ ملت حضرت حبیبُ الرّحمٰن قادری اور محدثِ بہار حضرت علّامہ احسان علی قادری رضوی رحمۃُ اللہِ علیہم سے ملی۔
درس و تدریس :
حضرت مفتی عبدالحلیم رحمۃُ اللہِ علیہ سندِ فراغت پانے کے بعد بارگاہِ مرشد میں حاضر باشی کی خواہش رکھتے تھے جس کی اجازت بھی مل گئی تھی لیکن بحرُ العلوم حضرت مفتی افضل حسین صاحب قبلہ رحمۃُ اللہِ علیہ نے آپ کو سختی کے ساتھ درس و تدریس کا حکم دیتے ہوئے فرمایا : تم نے درسِ نظامی میں محنت و مشقت کے ذریعے جو کچھ بھی کمال حاصل کیا ، درس و تدریس سے دوری کے سبب وہ ضائع ہو جائے گا۔ اس لئے تم درس و تدریس میں مشغول ہو جاؤ۔ اگرچہ ابتدائی جماعتیں پڑھانی پڑیں لیکن درس گاہ ہی اختیار کرو۔ اس طرح آپ نے منظرِ اسلام بریلی شریف میں پڑھانا شروع کیا۔ پھر3اپریل 1966ء میں حضرت علّامہ مشتاق احمد نظامی کے توسط سے تسہیلُ المصادر کے مصنف فقیہِ عصر حضرت مفتی عبدالرشید اشرفی نعیمی فتح پوری صاحب رحمۃُ اللہِ علیہ کےجامعہ عربیہ ناگپور تشریف لائے اور درس و تدریس کے جوہر لٹاتے رہے۔
تصنیف و تالیف :
حضرت مفتی عبد الحلیم صاحب رحمۃُ اللہِ علیہ کی زندگی کا ایک بڑا حصہ درس و تدریس اور طلبہ کی شخصیت سازی میں گزرا۔ اس کے بعد دعوت و تبلیغ میں مصروف ہو گئے۔ پھر سفر کی مصروفیات کے سبب تصنیف و تالیف کا خاص موقع میسر نہ آیا۔ تاہم وقتا فوقتاً آپ نے چند رسالے تحریر فرمائے جو عوام و خواص میں مقبول ہوئے : (1)فلم “ خانہ خدا “ کا شرعی حکم (2)اسلام میں داڑھی کا مقام (3)فتاویٰ حلیمیہ (آپ کے تحریر کردہ فتاویٰ کا مجموعہ)
یادگارِ فقیہِ اہلِ سنّت :
یوں تو فقیہِ اہلِ سنّت مفتی عبد الحلیم صاحب رحمۃُ اللہِ علیہ کا ہر کارنامہ آبِ زر سے صفحات میں محفوظ کئے جانے کے قابل ہے لیکن ان کارناموں میں دارُالعلوم ضیائیہ فیضُ الرضا کا قیام اور اس کی تعمیر و تعلیمی استحکام و مضبوطی کے لئے آپ کی خدمات اور قربانیاں ہمیشہ لوگوں کے قلب و نظر میں آپ کی یاد تازہ کرتی رہیں گی۔
فقیہِ اہلِ سنّت کا زہد و تقویٰ :
فقیہِ اہلِ سنّت حضرت مفتی عبد الحلیم صاحب رحمۃُ اللہِ علیہ ایک پابندِ شرع ، متقی و پرہیزگار اور ایک اللہ والی شخصیت کا نام ہے۔ آپ کی فکرِ آخرت اور خشیتِ الہٰی ، زہد و تقویٰ ، اخلاص و لِلہیت ہی کا نتیجہ تھا کہ جب جامعہ عربیہ ناگ پور کا دارُ الافتاء آپ کے سپرد کیا گیا تو آپ نے مفتی عبد الرشید صاحب رحمۃُ اللہِ علیہ سے عرض کیا : حُضور یہ آپ کی کرم نوازی اور حوصلہ افزائی ہے کہ آپ نے مجھے یہ ذمّہ داری سونپ دی۔ لیکن میں یہ ذمہ داری اس شرط پر قبول کروں گا کہ اس سے قبل دارُ الافتاء کا جو معاوضہ حضرت مولانا زینُ العابدین (آپ سے پہلے یہی افتا کی ذمہ داری سنبھال رہے تھے) کو ملا کرتا تھا میں اسے ہرگز نہ لوں گا۔ رضائے الٰہی کی خاطر مفت خدمت انجام دوں گا۔ غالباً اس وقت آپ کی تنخواہ 150روپے تھی۔ حضرت مفتی عبد الرشید صاحب رحمۃُ اللہِ علیہ نے آپ کا یہ اخلاص دیکھ کر شفقت بھرے انداز میں فرمایا : آپ عیال دار ہیں ، مہنگائی سر چڑھ کر بول رہی ہے آپ کی مختصر سی تنخواہ جو آپ کو مل رہی ہے اس سے آپ کے اپنے اور عیالی اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟ لہٰذا آپ کو اس کا معاوضہ لینا پڑے گا۔ حضرت مفتی عبدالحلیم صاحب رحمۃُ اللہِ علیہ مفتی عبدالرشید صاحب کی اس ادائے کرم نوازی سے متأثر تو ہوئے لیکن آپ کی بھی غیرت ایمانی بہت اعلیٰ درجے کی تھی۔ آپ نے پھر بارگاہ دلنواز میں عرض کی : حُضور!آپ نے جو کچھ فرمایا بجا فرمایا لیکن میرا ضمیر ہرگز یہ قبول نہیں کرتا کہ میں اس کا بھی معاوضہ لوں۔ درس گاہ پڑھاتا ہوں تو یہ طرفین کی رضا مندی پر ہے میں اس کی تنخواہ لے لیتا ہوں۔ مسجد میں امامت کرتا ہوں تو اس کی بھی تنخواہ مجھے مل جاتی ہے۔ تو میں کس منہ سے کہوں کہ میں دین کا کام کررہا ہوں؟ ساری خدمتوں پر تو معاوضہ مل ہی رہا ہے۔ کم از کم یہ فتویٰ نویسی اگر بلا معاوضہ ہو تو دل مطمئن رہے گا کہ دین کا کوئی کام بلا معاوضہ بھی انجام دے رہا ہوں۔
عاجزی اور خوفِ خدا :
دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن مولانا عبد الحبیب عطّاری کا بیان ہے کہ ایک بار میں مدینے شریف میں ان سے ملنے گیا ، حضرت اکیلے میں رو رہے تھے۔ میں نے عرض کی : حُضور! یہ اشک باری کس وجہ سے ہے؟ فرمایا : ابھی ابھی مُعاف نہ کرنے پر وعید سے متعلق ایک حدیثِ پاک میری نظر سے گزری ، مجھے یاد آگیا کہ مدینے شریف آنے سے پہلے میرے مدرسے میں ایک طالبِ علم نے کوئی غلطی کی تھی میں نے اس کو سزا کے طور پر درجے سے باہر نکال دیا۔ وہ مجھ سے معافی مانگتا رہا لیکن میں نے بطورِ تربیت اسے معاف نہ کیا تھا اب حدیثِ پاک پڑھ کر رو رہا ہوں ، یااللہ میں نے اس کو مُعاف کردیا تو بھی اس کو مُعاف کردے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* مدرس جامعۃُ المدینہ ، ہند
Comments