کتاب لکھنے کی احتیاطیں

بیک ٹائٹل

کتاب لکھنے کی احتیاطیں

ماہنامہ جولائی 2021

از : شیخِ طریقت ، امیرِاہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ

تصنیف و تالیف کے ذریعے دین کا پیغام لوگوں تک پہنچانا یہ ایک پُرانا طریقہ ہے ، یہ جس قدر اہم ہے اِسی قدر مشکل بھی ہے۔ تحریری کام میں کئی طرح کی احتیاطوں کی اَشد ضرورت ہے اس حوالے سے چند باتیں عرض کرتا ہوں :

*دینی کتاب ، رسالہ یا مضمون لکھنے میں ہمیشہ اللہ پاک کی رضا کو پیشِ نظر رکھنا چاہئے ، نام و نمود اور شہرت کی تمنا نہ رکھی جائے۔ حُبِّ جاہ سے بچتے ہوئے کتاب پر اپنا نام لکھنا اگرچہ جائز ہے لیکن اصل مقصود اللہ پاک کی رضا کا حصول ہونا چاہئے۔ لکھتے ہوئے یہ خوف ہونا چاہئے کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے کہیں اس کے سبب آخرت میں پھنس نہ جاؤں۔ تحریر کے معاملے میں اِخلاص کا معاملہ بھی نہایت نازک ہے ، نفس و شیطان انسان کو مختلف طریقوں سے ریاکاری اور اپنی واہ وا کے شوق میں مبتلا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔

*یاد رکھئے! آیات اور احادیثِ مبارکہ کی اپنی مرضی سے تفسیر و شرح کرنا حرام ہے ، صرف مفسرین و شارحین کی رائے نقل کی جائے۔ یونہی شرعی مسائل لکھنے میں بھی نہایت احتیاط کی ضرورت ہے کہیں کوئی گناہِ جاریہ کی صورت نہ بَن جائے۔ *بعض مصنفین کی تحریروں میں شرعی اَغلاط پائی جاتی ہیں ، کم و بیش20سال پہلے انہی باتوں کو دیکھتے ہوئے غالباً 2000ء میں ہم نے مجلس تفتیشِ کتب و رسائل بنائی تھی تاکہ مصنفین اپنی کُتب کی شرعی تفتیش کرواسکیں۔

*اپنی تحریر میں غیر محتاط الفاظ کا انتخاب ، دلی جذبات کی تائید نہ ہونے کے باوجود عاجزی پر مشتمل فِقرات لکھنا اور جھوٹی مبالغہ آرائی سے کام لینا آخرت میں گرفت کا سبب بن سکتا ہے۔ ہمارے بزرگانِ دِین  رحمۃُ اللہِ علیہم  الفاظ کے اِستعمال میں بہت محتاط ہوتے تھے ، اِحیاء ُ الْعُلوم کی تیسری جلد میں ہے : حضرتِ سَیِّدُنا میمون بن ابوشبیب  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں : میں بیٹھا خط لکھ رہا تھا کہ ایک حرف پر آکر رُک گیا کہ اگر یہ لفظ لکھ دیتا ہوں تو خط خوبصورت ہوجائے گا لیکن جھوٹ سے دامن نہیں بچا سکوں گا۔ پھر میں نے وہ لفظ چھوڑنے کا عزم کرلیا کہ بھلے میرا خط خوبصورت نہ ہو مگر میں یہ لفظ نہیں لکھوں گا۔ (احیاء العلوم ، 3 / 169) یہ تو ہمارے بزرگانِ دین  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی تحریر میں اِحتیاطیں تھیں لیکن آج کل کے بعض مضامین اور آرٹیکلز میں سچ اور جھوٹ کی پروا نہیں کی جاتی ، ایسا لکھنے سے بہتر ہے انسان قلم رکھ دے۔

*نعت شریف ، منقبت اور نظم وغیرہ لکھنے میں مزید اِحتیاط کی حاجت ہے کیونکہ اس میں کلام کا وزن برابر رکھنے ، ردیف و قافیہ نبھانے کے لئے کئی دفعہ غیر شرعی یا غیر محتاط اشعار بھی مرتب ہوجاتے ہیں ، لہٰذا    سلامتی و عافیت اسی میں ہے کہ جو مضبوط عالمِ دین ، فنِّ شاعری میں ماہر اور ذخیرۂ الفاظ کا حامل نہ ہو وہ حمد ونعت وغیرہ منظوم کلام مرتب کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اس میدان میں بڑے بڑے شُعرا جن میں نعت گو شاعر بھی شامل ہیں انہوں نے ٹھوکریں کھائی ہیں اور ایسی ایسی شرعی غلطیاں چھوڑ کر دُنیا سے رُخصت ہوئے ہیں کہ اَلْاَمَان وَالْحَفِیْظ۔ لکھنے والوں نے ان کی مثالیں تک لکھی ہیں کہ فلاں اتنا بڑا شاعر تھا ، اتنے اتنے کلام لکھے ، نعتیں بھی کہیں مگر یہ یہ غلط بات لکھ گیا۔

*اَلحمدُ لِلّٰہ!میری تمام تحریروں کی شرعی تفتیش ہوتی ہے یہاں تک کہ میں ایک پمفلٹ بھی لکھتا ہوں تو اس کی شرعی تفتیش کرواتا ہوں ، اشعار لکھوں تو ان کی شرعی اور فنّی دونوں قسم کی تفتیش کرواتا ہوں۔

اللہ کریم ہمیں تحریر میں حُبِّ جاہ و رِیاکاری اور شرعی و اخلاقی غلطیوں کی آفتوں سے بچائے اور صرف وہی بات لکھنے کی توفیق عطا فرمائے جو اُس کو راضی کرنے کا سبب بنے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(نوٹ : یہ مضمون 6رمضان المبارک1442ھ کی شب مطابق18اپریل2021ء کو نمازِ تراویح کے بعدہونے والے مدنی مذاکرے کی مدد سے تیار کرکے امیرِ اہلِ سنّت  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  کو دکھا کر ضرورتاً ترمیم کرکے پیش کیا جارہا ہے)


Share