شیرینی(Sweets)

ننھے میاں کی کہانی

شیرینیSweet

* ابوعبید عطاری مدنی

ماہنامہ جولائی 2021

بقر عید کی چھٹیاں گزار کر آج اسکول میں پہلا دن تھا ، تین پیریڈ پڑھائی ہوئی مگر چوتھا پیریڈ خالی تھا سر نوید آج چھٹی پر تھے ، یہ سنتے ہی بچّوں کے تو جیسے مزے آگئے۔ سب بچّے باتوں میں لگ گئے ، کچھ بچے بقر عید کے جانور کی باتیں کرنے لگے تو کچھ بچے ایک دوسرے کو بتا رہے تھے کہ عید پر کہاں کہاں گھومنے گئے اور کتنے مزے مزے کے کھانے کھائے۔ سب کی دیکھا دیکھی ننھے میاں اور ان کے دونوں دوست سلیم اور عمیر بھی آپس میں باتیں کرنے لگے۔ باتیں کرتے کرتے سلیم نے کہا : ہم ایک پارک میں گھومنے گئے تھے وہاں بڑے اچھے جھولے لگے ہوئے تھے ، نماز کا وقت ہوا تو میں نے اور ابو نے قریب کی مسجد میں عصر کی نماز پڑھی ، باہر نکلے تو ایک بزرگ کا عُرس ہورہا تھا اور وہاں نیاز میں شیرینی بٹ رہی تھی ، ابو اور میں نے شیرینی کھائی ، بڑے مزے کی تھی ، شیرینی والی بات سنتے ہی عمیر کہنے لگا : دو تین دن بعد اسلامی مہینے کی18تاریخ آنے والی ہے ، امی بتارہی تھیں کہ ہم بھی اس دن شیرینی بانٹیں گے ، تم دونوں بھی میرے گھر آجانا ، وہاں کھیلیں گے اور شیرینی بھی کھا لینا ، ننھے میاں نے عمیر سے پوچھا : 18تاریخ کو آپ کی امّی نیاز کیوں بانٹیں گی؟ عمیر کہنے لگا : امی کہہ رہی تھیں کہ 18ذوالحج کو تیسرے خلیفہ حضرت عثمانِ غنی  رضی اللہُ عنہ  شہید ہوئے تھے۔ اتنے میں اگلے پیریڈ کی بیل بجی تو سب بچے باتیں ختم کرکے سر حسن کی بکس اپنے بیگ سے نکالنے لگ گئے۔ شام کو ننھے میاں نے دادی سے کہا : دادی ہم بھی ذوالحج کی18تاریخ کو شیرینی بانٹیں گے ، مگر وہ کیوں؟ دادی نے پوچھا تو ننھے میاں نے عمیر کی بات دادی کو بتا دی ، دادی نے ساری بات سُن کر کہا : صرف شیرینی ہی نہیں اور بھی کئی کام کرنے چاہئیں ، ننھے میاں نے سوال کیا : دادی! اور کیا کام کرنے چاہئیں؟ دادی نے جواب دیا : رات کھانے کے بعد آپ کو بتاؤں گی کہ اس دن اور کیا کرنا چاہئے۔ اس کے بعد دادی اپنے کمرے میں چلی گئیں اور اپنی الماری سے ایک کتاب نکال کر پڑھنے لگیں۔

رات کو کھانا کھانے کے بعد دادی نے دسترخوان پر بیٹھے بیٹھے سب کو بتانا شروع کردیا ، ذوالحج کی 18 تاریخ آنے والی ہے اس دن پیارےنبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بہت ہی پیارے صحابی حضرت عثمان  رضی اللہُ عنہ  کا عُرس مبارک ہوتا ہے ، مسلمانوں کے امیر حضرت عثمانِ غنی کو اس دن دشمنوں نے شہید کردیا تھا ، ایک قیامت ٹوٹ پڑی تھی کہ یہ کیا ہوگیا ، اور یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی ، قراٰنِ پاک میں ہے : )مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ-( ترجَمۂ کنزُالعرفان : جس نے کسی جان کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے بدلے کے بغیر کسی شخص کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا۔ (پ6 ، المائدہ : 32) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

جب ایک عام شخص کو بھی بغیر وجہ کے قتل نہیں کیا جاسکتا تو مسلمانوں کے اس وقت کے سب سے بڑے راہنما امیرُالمؤمنین کی شہادت کس قدر بڑی بات تھی!

ننھے میاں اس عرس کے موقع پر ہوسکے تو روزہ بھی رکھیں ، زیادہ سے زیادہ تلاوت کریں ، خوب نیکیاں کریں اور اچھے اچھے کام کرکے اس کا ثواب حضرت عثمانِ غنی کو بھیج دیں۔ حضرت عثمان  رضی اللہُ عنہ  کی زندگی کے واقعات اور ان کی سیرت پڑھنی چاہئے اور اس پر عمل کرنے کی نیت کرنی چاہئے۔

دادی نے اپنی بات مکمل کی تو ننھے میاں کہنے لگے : دادسی! آپ نے اتنی ساری اچھی اچھی باتیں بتا دی ہیں ، میں عمیر اور اس کی امی کو اتنی ساری باتیں کیسے بتاؤں گا ، دادی نے کہا : تم فکر نہیں کرو ، میں عمیر کی امّی کو فون کرکے خود بتا دوں گی کہ اس دن اور کیا کیا کام کرنے چاہئیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ماہنامہ  فیضانِ مدینہ ، کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code