نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم (قسط : 07)
* مولانا ابوالنّور راشد علی عطاری مدنی
ماہنامہ جولائی 2021ء
گزشتہ سے پیوستہ
(14)اَنَا نَبِيُّ الرَّحْمَةِ ، وَنَبِيُّ التَّوْبَةِ ترجمہ : میں رحمت والا نبی اور توبہ کا نبی ہوں۔ [1]
محبوبِ ربُّ العزّت کے اس پُرعظمت فرمان میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو مبارک اسماء “ نَبِيُّ الرَّحْمَةِ “ اور “ نَبِيُّ التَّوْبَةِ “ کا ذکر ہے ، آپ کی رحمت و عنایت کا مختصر ذکر مئی اور جون2021ء کے شماروں میں فرمانِ پاک “ اَنَا رَحْمَۃٌ مُہْدَاۃٌ “ اور “ اَنَا رَسُولُ الرَّحْمَةِ وَ رَسُولُ الرَّاحَةِ “ کے تحت کیا گیا ہے ، جبکہ اسم گرامی “ نَبِيُّ التَّوْبَةِ “ کی مختصر تشریح یہاں ملاحظہ کیجئے :
توبہ بندے اور اللہ کے درمیان ناطے کو جوڑنے اور مضبوط کرنے کا پہلا مرحلہ یا دروازہ ہے ، پچھلی امتوں میں گناہوں کی سزا بہت سخت تھی اور بعض امتوں میں تو اگر کوئی رات کو گناہ کرتا تو صبح اس کے دروازے پر لکھا ہوتا تھا۔ [2]
یہ بھی نبیِّ رحمت ، ماہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عظیم شان و عظمت ہی کا حصہ ہے کہ آپ کے صدقے سے کائنات کو توبہ جیسی نعمتِ کبریٰ نصیب ہوئی ، جی ہاں! توبہ واقعی بہت بڑی نعمت ہے ، بھلا کون سا بادشاہ ، حکمران ، صاحبِ اقتدار ، صاحبِ منصب و ثروت ایسا ہے کہ جس کی بندہ ایک سے دوسری مرتبہ کوئی نافرمانی کردے اور وہ اس کو مُعاف کردے ، کوئی بڑے سے بڑا مہربان بھی ہوگا تو پہلی بات یہ کہ اللہ و رسول کی عطا ہی سے ہوگا اور دوسری بات یہ کہ وہ بھی کتنا صبر کرے گا ، بالآخر دوسری ، تیسری یا چوتھی نافرمانی پر نکال باہر ہی کرے گا ، اپنے دروازے نافرمان پر ہمیشہ کے لئے بند کردے گا ، لیکن قربان جائیے “ نَبِيُّ التَّوْبَةِ “ جنابِ محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کریم رب کی عطا پر کہ اگر کوئی دن میں ستر بار بھی گناہ کر بیٹھے اور ستر بار توبہ کرے تو بھی اللہ کریم کرم فرماتا ہے۔ مگر یادرکھئے! اس ارادے سے گناہ کرنا کہ بعد میں توبہ کرلوں گا یہ اَشَدّ کبیرہ یعنی سخت ترین کبیرہ گناہ ہے بلکہ توبہ کے ارادے سے گناہ کرنا کُفر ہے۔ [3]
توبہ صرف گناہ سے ہی نہیں کی جاتی ، بلکہ یہ تو بارگاہِ الٰہ میں حاضر ہونے کا سوال ہے ، اللہ کے نیک بندے دن میں کئی کئی بار توبہ کرتے ، خود جنابِ سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی دن میں سو سو بار اِسْتِغفار فرماتے تھے۔ [4]
امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ اللہ کریم کے حقوق بندوں پر اس قدر ہيں کہ ان کا ادا کرنا ممکن نہيں ہے لہٰذا چاہئے کہ ہر بندہ جب اٹھے تو توبہ کرے اور رات کو توبہ کرکے سوئے۔ [5]
توبہ کی جس قدر ترغیب رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمائی ، کہیں نہیں ملتی ، قراٰن ِکریم اور احادیثِ مبارکہ میں جگہ جگہ توبہ کی ترغیب ہے چنانچہ چند آیات و روایات کا ماحصل ملاحظہ کیجئے :
توبہ فلاح وکامیابی پانے کا نسخہ ہے۔ [6] توبہ کرنے والا اللہ کا محبوب ہے۔ [7] توبہ کرنے والا رحمتِ الٰہی کا مستحق ہے۔ [8] توبہ کرنے والے کی بُرائیاں نیکیوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ [9] توبہ کرنے والے کے گناہ مٹ جاتے ہیں۔ [10] توبہ کرنے والے داخلِ جنت ہوں گے۔ [11] توبہ کرنا بہترین انسان کی علامت ہے۔ [12] توبہ مشکلات کی آسانی ، غم سے آزادی اور بے حساب رزق کی عطا کا ذریعہ ہے۔ [13] توبہ دل کا زنگ دور کرتی ہے۔[14]
“ نَبِيُّ التَّوْبَةِ “ جنابِ محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں بڑے بڑے گناہ گار آئے ، بڑے بڑے ظالم آئے ، وہ بھی آئے جنہوں نے اپنی بیٹیوں تک کو زندہ دفن کردیا تھا ، وہ بھی آئے جنہوں نے مکۂ مکرمہ کے 13سالہ دورِ نبوت میں ظلم و جبر کی ہر حد پار کردی تھی ، وہ بھی آئے جنہوں نے صحابۂ کرام اور اقرباء عظام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تھے ، لیکن قربان جائیے آپ کی شانِ کریمی و عفو پر کہ آپ نے ان کو معاف کردیا اور توبہ قبول فرمائی۔
حضرت عکرمہ جو کہ ابوجہل کے بیٹے ہیں۔ قبولِ اسلام سے پہلے جب مکۂ مکرمہ فتح ہوا تو یہ بھاگ کریمن چلے گئے لیکن ان کی بیوی “ اُمِّ حکیم “ نے اسلام قبول کرلیا اور اپنے شوہر عکرمہ کے لئے بارگاہِ رسالت میں مُعافی کی درخواست پیش کی تو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کی درخواست کو قبول فرماتے ہوئے حضرت عکرمہ کو معاف فرما دیا اور پھر جب بارگاہ ِرسالت میں آکر انہوں نے توبہ کی تو سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کی توبہ قبول فرمائی ، صرف یہی نہیں بلکہ جب حضرت عکرمہ سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان كے لئے جلدی سے کھڑے ہوگئے اور حضرت عكرمہ کی توبہ كا اس قدر اكرام فرمايا كہ صحابۂ کرام سے پہلے ہی فرما دیا : تمہارے پاس عکرمہ مؤمن ہو کر آرہے ہیں ان کے سامنے ان کے باپ ابوجہل کو بُرا بھلا نہ کہنا۔ [15]
“ کَعب بن زُہَیر “ بڑے پائے کے شاعر تھے ، ان کے بارے میں قتل کا آرڈر جاری ہوچکا تھا ، فرمایا گیا تھا کہ جو بھی انہیں دیکھے قتل کردے ، ان کے بھائی حضرت بُجیر بن زُہَیر جو کہ اسلام لاچکے تھے انہوں نے آپ کو خط لکھا اور بتایا کہ اگر تم اسلام لے آؤ تو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مُعاف کردیں گے ، چنانچہ یہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کی توبہ کو بھی قبول فرمایا ، بارگاہِ رسالت سے امان پاکر انہوں نے ایک قصیدہ شانِ سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں پیش کیا ، جسے قصیدہ “ بانت سعاد “ کہا جاتاہے ، اسے “ قصیدۂ بُردہ “ بھی کہتے ہیں کیونکہ رسولِ كريم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قصیدہ سُن کر انہیں اپنی مبارک چادر عطافرمائی۔ [16]
اس قصیدے کے دو اشعار ملاحظہ کیجئے :
اُنْبِئْتُ اَنَّ رَسُوْلَ اللہ ِاَوْعَدَنِیْ وَالْعَفْوُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہ ِمَامُوْل
اِنِّیْ اَتَیْتُ رَسُوْلَ اللہ ِمُعْتَذِرا وَالْعُذْرُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہ ِمَقْبُوْل
مجھے خبر پہنچی کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میرے لئے سزا کا حکم فرمایا ہے اور رسول کے ہاں معافی کی امید کی جاتی ہے اور میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حضور معذرت کرتا حاضر ہوا اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں عذر قبول کیا جاتا ہے۔ [17]
“ وحشی “ جنہوں نے جنگ ِ اُحد میں سیّدُالشہداء حضرت حمزہ رضی اللہُ عنہ کو شہید کیا تھا۔ یہ بھی فتحِ مکہ کے دن بھاگ کر طائف چلے گئے تھے مگر پھر طائف کے ایک وفد کے ہمراہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر مسلمان ہوگئے۔ حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کی بھی توبہ قبول فرمائی ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ کے زمانۂ خلافت میں جب جھوٹے مدعیِ نبوت مُسَیْلَمَہ کذّاب سے اہلِ اسلام کی جنگ ہوئی تو حضرت وحشی رضی اللہُ عنہ بھی اپنا نیزہ لے کر جہاد میں شامل ہوئے اور مسیلمہ کذاب کو قتل کیا۔ [18]
اللہ کریم ہمیں بھی ہمیشہ توبہ کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری توبہ کو درجۂ قبولیت عطا فرمائے ، اٰمین۔
حُضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اسمِ گرامی “ نَبِيُّ التَّوْبَةِ “ کے دلچسپ اور ایمان و محبت کو گرما دینے والے کچھ علمی نکات اگلے ماہ کے شمارے میں پیش کئے جائیں گے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، نائب مدیر ماہنامہ فیضان مدینہ ، کراچی
[1] شمائل ترمذی ، ص214 ، حدیث : 361
[2] نور الانوار ، ص175
[3] پردےکےبارےمیں سوال جواب ، ص302
[4] مسلم ، ص1111 ، حدیث : 6858
[5] کیمیائے سعادت ، 2 / 763
[6] پ18 ، النور : 31
[7] پ2 ، البقرۃ : 222
[8] پ4 ، النسآء : 17 ، پ6 ، المآئدہ : 39
[9] پ19 ، الفرقان : 70
[10] پ28 ، التحریم : 8
[11] پ16 ، مریم : 60
[12] ابن ماجہ ، 4 / 491 ، حدیث : 4251
[13] ابو داؤد ، 2 / 122 ، حدیث : 1518
[14] مجمع البحرین ، 4 / 272 ، حدیث : 4739
[15] امتاع الاسماع ، 1 / 398 ، دلائل النبوۃ للبیہقی ، 5 / 98
[16] امتاع الاسماع ، 2 / 88
[17] المجموعۃ النبہانیۃ فی المدائح النبویۃ ، 3 / 6
[18] سبل الہدیٰ والرشاد ، 4 / 217۔
Comments