تاریخ کے اوراق
میدانِ عرفات
* مولانا ایّوب عطاری مدنی
عَرَفات عَرَفہ کی جمع ہے۔ ذُوالحجۃِ الحرام کی نویں تاریخ کو بھی عرفہ کہتے ہیں اور عرفات میدان کو بھی ، مگر لفظ عرفات صرف میدان کو کہا جاتا ہے نہ کہ اس دن کو۔ چونکہ اس جگہ کا ہر حصہ عرفہ ہے اس لئے جمع کا لفظ عرفات استعمال کیا جاتا ہے۔ [1]
وجہ تسمیہ :
اس جگہ کو چند وجوہات کی بناء پر عرفات کہتے ہیں :
(1)عَرَف کا مطلب پہچاننا ہے : چونکہ اسی جگہ حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت حوا رضی اللہُ عنہا کی ملاقات تین سو برس کی جدائی کے بعد ہوئی اور انہوں نے ایک دوسرے کو پہچانا۔ [2]
(2)اسی جگہ حضرت جبرئیل علیہ السّلام نے حضرت سیدنا ابراہیم خلیلُ اللہ علیٰ نَبِیِّنَا وعلیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کو ارکانِ حج سکھائے اور آپ نے فرمایا عَرَفْتُ یعنی میں نے پہچان لیا
(3)عَرف کا ایک معنی عطیہ بھی ہے ، اللہ پاک اس دن حاجیوں کو مغفرت کا تحفہ دیتا ہے ، اس لئے اسے عَرَفہ کہتے ہیں
(4)تمام حجاج وہاں پہنچ کر اپنے گناہوں کا اقرار وا عتراف کرتے ہیں اس لئے یہ عَرَفہ کہلاتا ہے۔ [3]
محلِ وقوع :
میدانِ عرفات ، مکہ سے مشرق کی جانب طائف کی راہ پر تقریباً 20 کلو میٹر اور مِنیٰ سے تقریباً 11 کلو میٹر کے فاصلے پر ایک بڑا وسیع و عریض میدان ہے۔ [4] یہ میدان شمال سے جنوب تک 12 کلو میٹر اور مشرق سے مغرب تک پانچ کلو میٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ شمالی جانب سے عرفات نامی پہاڑی سلسلے میں گھرا ہوا ہے۔ [5]میدانِ عرفات کے درمیان میں موجود جبلِ رحمت کے قریب جہاں سیاہ پتّھر کا فرش ہے وہاں وُقُوف کرنا افضل ہے۔[6]
احکام :
9ذُوالْحِجَّہ کو دوپہر ڈھلنے (یعنی نَمازِ ظہر کا وَقت شروع ہونے) سے لے کر دسویں کی صبحِ صادِق کے دَرمِیان جو کوئی اِحرام کے ساتھ ایک لمحے کے لئے بھی عَرَفات ِپاک میں داخِل ہواوہ حاجی ہوگیا ، یہاں کا وُقوف حج کا رُکنِ اعظم ہے۔ [7]
میدانِ عرفات کے مغرِبی (West Side ) کنارے پر ایک عالی شان مسجِد ، مسجدِ نِمرہ اپنے جَلوے لُٹا رہی ہے ، اِس کے مزید دو نام یہ ہیں : (1) مسجِدِ عرفہ(2) مسجد ِابراھیم۔ [8]
وقوفِ عرفات کے فضائل :
(1)بے شُمار اَولیائے کرام رحمہم اللہ السَّلام اور اللہ کے دو نبی حضرت سیِدُنا خِضَر اورحضرت سیِدُنا الیاس علیٰ نَبِیِّنَا وعلیہما الصّلوٰۃُ والسّلام بھی بروزِ عَرَفہ میدانِ عَرَفاتِ مُبارَک میں تشریف فرما ہوتے ہیں۔ [9]
(2)حضرتِ سیِّدُنا امام جعفرصادق رحمۃُ اللہِ علیہ سے مروی ہے : کچھ گناہ ایسے ہیں جن کا کفّارہ وُقُوفِ عَرَفہ ہی ہے۔ (یعنی وہ صِرْف وُقُوفِ عَرَفات سے ہی مٹتے ہیں )۔ [10]
(3)رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفرمایا : اللہ پاک یومِ عرفہ سے زیادہ کسی دن بندوں کو جہنم سے آزاد نہیں کرتا ، اللہ (اپنے بندوں سے) قریب ہوتا ہے ، پھر فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے : یہ بندے کس ارادے سے آئے ہیں۔ [11]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، مفتش اسپیشل پرسنزڈ پارٹمنٹ(دعوت اسلامی)
[1] مراٰۃ المناجیح ، 4 / 139 ماخوذاً
[2] تفسیر قرطبی ، البقرۃ ، تحت الآیۃ : 198 ، 1 / 320 ، جزء2
[3] خازن ، البقرۃ ، تحت الآیۃ : 198 ، 1 / 140 ، مراٰۃ المناجیح ، 4 / 207
[4] بہارشریعت ، حصہ اول اصطلاحات
[5] اردو نیوز ویب
[6] رفیق الحرمین ، ص160
[7] رفیق الحرمین ، ص160
[8] عاشقانِ رسول کی130حکایات ، ص235
[9] فتاویٰ رضویہ ، 10 / 748
[10] قوتُ القلوب ، 2 / 199
[11] مسلم ، ص : 540 ، حدیث : 3288
Comments