بیٹیوں کو سلیقہ مندی سکھائیں

بیٹیوں کی تربیت

بیٹیوں کو سلیقہ مندی سکھائیں

*اُمّ میلاد عطاریہ

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2024ء

بیٹیاں اللہ کی رحمت اور ماں باپ کی عزّت و حرمت کی پاسبان ہوتی ہیں۔ ماں باپ بیٹیوں کو عزیز رکھتے ہیں، بہت نازوں سے پالتے ہیں اس احساس کے ساتھ ان کی پرورش کرتے ہیں کہ بڑے ہونے کے بعد ان بیٹیوں نے ماں، بہو اور ساس کی حیثیت سے ذمہ داری بھی سنبھالنی ہے عقلمندی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ بیٹی کی تربیت اس اندا ز سے کی جائے کہ وہ اچھی تربیت اور سلیقہ مندی کے ذریعے سسرال میں اپنا مقام بنا سکے۔

اس تربیت کا آغاز ابتدائی عمر سے کر دینا چاہئے۔ کہ جس طرح شاخوں کی تراش خراش پودوں کو حُسن عطا کرتی ہے اور اگر ان پر توجّہ نہ دی جائے، تو پودے جھاڑ جھنکار میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جن والدین کو اپنی رحمت سے نوازا ہے، اُن پر ذمّے داری عائد ہوتی ہے کہ اپنی بیٹی کی تربیت اس نہج پر کریں کہ آنے والے کل میں وہ ایک بہترین بہن، بیوی اور ماں بن سکے۔

بیٹیوں کو بچپن سے ہی صفائی ستھرائی کا عادی بنانا اور چیزوں کو سلیقے سے ان کی جگہ پر رکھنا سکھانا چاہئے۔ بچوں کی اشیاء کی ترتیب سکھائیے مثال کے طو رپر ہر بچے سے متعلق اشیاء کی جگہیں مخصوص ہوں۔ لڑکوں کی چیزیں الگ رکھی جائیں اور لڑکیوں کی الگ۔ انہیں بتائیے کہ ا سکول یونیفارم کہاں رکھنا ہے، گھر کے کپڑوں کی جگہ کون سی ہے اسی طرح کبھی کبھار پہننے والے یا تقریبات کے کپڑوں کو الگ رکھوائیے موسم کی مناسبت سے بھی کپڑے ترتیب دئیے ہوں مثلاً اگر گرمیوں کا موسم آرہا ہے تو اس موسم کے کپڑے زیادہ سامنے ہونے چاہئیں جو جوتے استعمال نہ ہورہے ہوں انہیں کھلا نہ رکھا جائے بلکہ پالش کرکےحفاظت کے ساتھ ان کی طے شدہ جگہ پر ڈھک کر رکھا جائے۔

چھوٹی عمر سے ہی  بچیوں کو مہمانوں یا باہر کے لوگوں کے سامنے اٹھنے بیٹھنے، بولنے کا طریقہ سکھانا بھی تربیت کا حصہ بنائیے۔ کس سے ہاتھ ملانا ہے کس سے نہیں۔ ان کی عمر کے لحاظ سے حیا کے تقاضے انہیں سکھاتے رہئے کہ گھر کے مردوں کے سامنے بھی سِر جھاڑ منہ پہاڑ حلیے میں نہ رہا جائے بلکہ تمیز کے دائرے میں رہتے ہوئے جو بے تکلفی کی جا سکتی ہے اس کی حدود انہیں سکھائیے۔

گھر کے کام کاج میں ان کی دلچسپی پیدا کریں بعض مائیں اپنی بیٹیوں سے یہ سوچ کر کام نہیں کرواتیں کہ انھیں سسرال جاکر یہی سب کرنا ہے لیکن بعد میں ایک ساتھ کئی ذمہ داریاں لڑکی کے لئے پریشانی کا باعث بن سکتی ہیں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ بیٹیوں میں سلیقہ اور ہنر مندی کا شوق بھی پیدا کرنا چاہئے۔

صدرُالشَّریعہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:لڑکی کو بھی عقائد و ضروری مسائل سِکھانے کے بعد کسی عورت سے سِلائی اور نقش و نگار وغیرہ ایسے کام سکھائیں جن کی عورتوں کو اکثر ضَرورت پڑتی ہے اور کھانا پکانے اور دیگر اُمورِ خانہ داری(گھرکے کاموں)میں اُس کو سلیقے ہونے(یعنی تمیز سکھانے) کی کوشش کریں کہ سلیقے والی عورت جس خوبی سے زندگی بسر کرسکتی ہے بدسلیقہ نہیں کرسکتی۔(بہارِ شریعت،2/257)

اگر مائیں چاہتی ہیں کہ بیٹی دوسرے گھر جاکر خود بھی سُکھ چین سے رہے تو انہیں گھر داری، کھانے پکانے کی بہتر تربیت کے ساتھ ساتھ سلیقہ مندی کی چاشنی سے بھی آشنا کریں۔

اگر ایسا ہوا تو یقین جانئے کہ آپ کی اولاد ہر جگہ اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوجائے گی لیکن اگر طرزِ عمل اس کے مخالف ہوا تو پھر اولاد اور والدین دونوں کو پریشانی کا سامناہوسکتاہے۔ بچوں کو مُعاشرے کا اچھا اور نیک مسلمان بنانے کیلئے خُود بھی دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ رہئے اور اپنے بچّوں کوبھی اس ماحول سے وابستہ رکھئے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران عالمی مجلس مشاورت (دعوتِ اسلامی) اسلامی بہن


Share