تجارتی کاموں کے لئے ویب سائٹ بنا کر دینا کیسا؟

احکامِ تجارت

*مفتی ابو محمد علی اصغر عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2024ء

(1)گرافکس ڈیزائنر کا  جانداروں کی ڈیجیٹل تصاویر بناکر دینا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم گرافکس ڈیزائنگ کا کام کرتے ہیں، لوگ ہم سے مختلف اشیاء ڈیزائن کرواتے ہیں، بعض اوقات ہمیں جانداروں کی تصاویر بنانے کا آرڈر بھی ملتا ہے اور کسٹمر کے متعلق ہمیں یہ کنفرم نہیں ہو تا کہ وہ بعد میں اس کا پرنٹ نکلوائے گا یا پرنٹ نکلوائے بغیر محض ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر ہی اس کا استعمال کرےگا تو کیا ہمارا ایسے شخص کو جانداروں کی تصاویر والی اشیاء بنا کر دینا جائز ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: ڈیجیٹل تصویر شرعاً تصویر کے حکم میں نہیں ہے لہٰذا پوچھی گئی صورت میں جب آپ کو یہ کنفرم نہیں ہے کہ کسٹمر جاندار کی تصویر کا پرنٹ نکالے گا توآپ کا تصویروں پر گرافکس کا کام کرناجائزہے، البتہ جن تصاویر میں بے حیائی، بے پردگی اور دیگر غیر شرعی امور ہوں تو ان تصویروں کا اگرچہ پرنٹ نہ بھی نکالاجائے لیکن غیرشرعی امورپرمشتمل ہونے کی وجہ سے ان پرگرافکس کا کام کرناجائزنہیں۔

معصیت جب عین شے کے ساتھ قائم ہو مگر گناہ کے لئے متعین نہ ہو تو محض شک کی بناء پر اس شے کا بیچنا منع نہیں جیساکہ ہدایہ میں ہے:وان كان لا يعرف انه من اهل الفتنة لا باس بذلك، لانه يحتمل ان لا يستعمله فى الفتنة فلا يكره بالشك یعنی: جس شخص کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ یہ اہل فتنہ میں سے ہے تو اسے ہتھیار بیچنے میں کو ئی حرج نہیں کیونکہ ممکن ہے وہ اسے فتنہ پروری کے کاموں میں استعمال نہ کرے لہٰذا محض شک کی بناء پر ایسے شخص کو ہتھیار بیچنا مکروہ نہیں۔(الہدایہ، 6/506)

اسی طرح افیون بیچنے سے متعلق امامِ اہلِسنّت فرماتے ہیں: ”افیون نشہ کی حدتک کھانا حرام ہے اور اسے بیرونی علاج مثلاً ضمادوطلاء میں استعمال کرنا یاخوردنی معجونوں میں اتنا قلیل حصہ داخل کرنا کہ روز کی قدر شربت نشے کی حدتک نہ پہنچے توجائز ہے اور جب وہ معصیت کے لئے متعین نہیں تو اس کے بیچنے میں حرج نہیں۔“(فتاویٰ رضویہ، 23/574)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(2)آن لائن آرڈر لینے کے بعد فروزن آئٹم تیار کرکے بیچنا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شر ع متین اس مسئلے میں کہ آج کل کراچی میں ایک آن لائن کام بہت عام ہورہا ہے جس میں واٹس ایپ اور فیس بُک وغیرہ کے ذریعے مختلف اقسام کی Frozen یعنی بغیر فرائی شدہ مختلف اقسام کے سموسے رول وغیرہ کی تشہیر کی جاتی ہے اور آن لائن آرڈر آنے پر انھیں گھر پر تیار کر کے بیچا جاتا ہے جبکہ آرڈر آنے کے وقت بعض اوقات تیار مال ہمارے پاس نہیں ہوتا تو اس حوالے سے شرعی حکم کیا ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: پوچھی گئی صورت میں Frozen یعنی بغیر فرائی شدہ مختلف اقسام کے سموسے رول وغیرہ کی سوشل میڈیا پر تشہیر کرنا اور آن لائن آرڈر آنے پر اسے بیچنا جائز ہے اگر چہ آن لائن آرڈر لیتے وقت تیار مال ملکیت میں موجود نہ ہو کیونکہ یہ ”بیع استصناع“ ہے جو خلاف قیاس جائز ہے، اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

آرڈر پر چیز بنوانے کو فقہی اصطلاح میں ”بیع استصناع“ کہتے ہیں یہ ہر اُس چیز میں جائز ہے جسے عموماً آرڈر پر بنوایا جاتا ہو، جبکہ آرڈر دیتے وقت اس چیز کی قیمت، مقدار، جنس، نوع وغیرہ تمام چیزیں اس طرح واضح ہوں کہ بعد میں تنازع نہ ہوسکے۔

سیدی اعلیٰ حضرت، امامِ اہل سنت، مُجدد دين وملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ ”بیع استصناع “ سے متعلق فرماتے ہيں:”کسی سے کوئی چیز اس طرح بنوانا کہ وہ اپنے پاس سے اتنی قیمت کو بنادے یہ صورت استصناع کہلاتی ہے کہ اگر اس چیز کے یوں بنوانے کا عرف جاری ہے اوراس کی قسم و صفت و حال و پیمانہ و قیمت وغیرہا کی ایسی صاف تصریح ہوگئی ہے کہ کوئی جہالت آئندہ منازعت کے قابل نہ رہے یہ عقد شرعا جائز ہوتا ہے اور اس میں بیع سلم کی شرطیں مثلاً روپیہ پیشگی اس جلسہ میں دے دینا یا اس کا بازار میں موجود رہنا یا مثلی ہونا کچھ ضرور نہیں ہوتا۔(فتاویٰ رضویہ، 17/597)

نوٹ: ڈلیوری کا مقام اور ڈلیوری چارجز کتنے ہوں گے؟ یا فری ڈلیوری ہے؟ اسے بھی آرڈر کے وقت ہی طے کرلیا جائے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(3)تجارتی کاموں کے لئے ویب سائٹ بنا کر دینا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم شراب وغیرہ حرام چیزوں کی ویب سائٹ تو نہیں بناتے البتہ ایسا ہوتا ہے کہ کسٹمر کو ٹریڈنگ کے لئے کوئی ویب سائٹ بنا کر دے دیتے ہیں جس پر کسٹمر اپنی چیزیں رکھ کر بیچے گا، ہمیں اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ وہ کن چیزوں کو اپنی ویب سائٹ پر لگائے گا اس میں ہم نہ تو چیزیں رکھتے ہیں نہ ہی کوئی تصویر وغیرہ لگاتے ہیں لیکن کسٹمر خود ہی بعد میں اس پر ناجائز تصاویر لگادیتا ہے یا کوئی ناجائز پروڈکٹ بیچتا ہے تو کیا ہم بھی گنہگار ہوں گے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: پوچھی گئی صورت میں آپ کسٹمر کو فقط تجارتی کاموں کے لئے ویب سائٹ بنا کر دے رہے ہیں اور بناتے وقت بھی اس کا معصیت کے لئے استعمال ہونامتعین نہیں ہے کہ وہ اسے ناجائز پروڈکٹ کی فروخت کے لئے استعمال کرے گا لہٰذا آپ کا کسٹمر کو ایسی تجارتی ویب سائٹ بناکر دینا، جائز ہے، اب اگر وہ اپنی اس ویب سائٹ پر بے پردہ عورتوں کی تصاویر کے ذریعے پروڈکٹ کی تشہیر کرے یا کوئی ناجائز چیز بیچے تو آپ اس میں گنہگار نہیں ہوں گے، یہ ایسا ہی ہے کہ جیسےکوئی شخص چھری چاقو وغیرہ عوام کو فروخت کرے جن کے متعلق یہ معلوم نہیں کہ وہ اسے سبزی وغیرہ کاٹنے میں استعمال کریں گے یا مسلمانوں کو ایذا پہنچانے کے لئے استعمال کریں گے، ہاں اگر پہلے سے ہی یہ معلوم ہے کہ وہ کسٹمر اس ویب سائٹ کو ناجائز کاموں کے لئے استعمال کرے گا تو اب آپ کے لئے اس کسٹمر کو ویب سائٹ بنا کردینا گناہ کے کام میں براہ راست معاونت کرنا ہوگا جو کہ جائز نہیں،یہ ایسا ہی ہوگا کہ کوئی شخص فتنہ و فساد کرنے والے لوگوں کے ہاتھ ہتھیار بیچےحالانکہ یہ بات معلوم ہے کہ یہ لوگ ان ہتھیاروں کو قتل و غارت گری کے لئے استعمال کریں گے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* محقق اہل سنت، دارالافتاء اہل سنت نورالعرفان، کھارادر کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code