مخلوقاتِ الہٰی میں غوروفکر کی دعوت

قرآنی تعلیمات

مخلوقاتِ الٰہی میں غوروفکر کی دعوت

*مولانا ابوالنّور راشد علی عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2024ء

کتابِ ہدایت قراٰنِ مجید، برھانِ رشید  کی دعوتِ فکر و تدبر کے دائرے میں مخلوقاتِ الٰہی میں غوروفکر کرنا بھی شامل ہے۔  اللہ رب العزّت نے اپنی تخلیقات میں غوروفکر کی مختلف انداز میں دعوت دی ہے اور اس غوروفکر کے مقاصد میں  اللہ  تعالیٰ کے وجود، وحدانیت،  شرک  و ہمسَری سے پاکی اور اختیارات و قدرتِ کاملہ  وغیرہ کے متعلق  یقین و ایمانِ  پختہ رکھنا شامل ہے۔

امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:مخلوق میں غوروفکر کرنے سے لامحالہ خالق اور اس کی عظمت وجلالت اور قدرت کی معرفت نصیب ہو جاتی ہے۔ پھر جیسے جیسے اللہ  ربّ العزّت کے پیدا کردہ عجائبات کی معرفت زیادہ ہوتی رہے گی تو ربّ کریم  کی عظمت وجلالت میں تمہاری معرفت بھی کامل ہوتی رہے گی۔ مثلاً تم کسی عالِم کے علم کی معرفت حاصل ہو جانے کے بعد اسے عظیم سمجھتے ہو اور مسلسل اس کے اشعار وتصنیفات میں انتہائی باریک نکات پر مطلع ہوتے ہو تو تمہیں اس کی مزید معرفت ہوتی رہتی ہے اور تمہارے دل میں اس کا احترام اور عزت وتعظیم بڑھتا رہتا ہے حتّٰی کہ اس کے کلام کا ہر کلمہ اور اس کے اشعار کا ہر عجیب شعر تمہارے دل میں اس کا مقام زیادہ کرتے ہوئے تمہیں اس کی عزت وتعظیم کی دعوت دیتا ہے۔ اسی طرح تم اللہ کریم کی مخلوقات میں غور کرو۔ کائنات میں موجود اللہ کی مخلوقات اور اس میں غور وفکر کرنے کی کوئی انتہا نہیں۔ہربندے کےلئے اس میں سےاتنا ہی ہے جتنا اس کا نصیب ہے۔ ([1])

جس طرح کسی کی عظمت، قدرت، حکمت اور علم کی معرفت حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ اس کی بنائی ہوئی چیز ہوتی ہے کہ اس میں غورو فکر کرنے سے یہ سب چیزیں آشکار ہو جاتی ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کی عظمت، قدرت، حکمت، وحدانیت اور ا س کے علم کی پہچان حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ اس کی پیدا کی ہوئی یہ کائنات ہے،اس میں موجود تما م چیزیں اپنے خالق کی وحدانیت پر دلالت کرنے والی اور ا س کے جلال و کبریائی کی مُظہِر ہیں اور ان میں تفکر اور تَدَبُّر کرنے سے خالقِ کائنات کی معرفت حاصل ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر اس کائنات میں موجود مختلف چیزوں جیسے انسانوں کی تخلیق،زمین و آسمان کی بناوٹ ، زمین کی پیداوار،ہوا اور بارش، سمندر میں کشتیوں کی روانی، زبانوں اور رنگوں کے اختلاف وغیرہ بے شمار اَشیاء میں غور وفکر کرنے کی دعوت اورترغیب دی گئی تاکہ انسان ا ن میں غورو فکر کے ذریعے اپنے خالقِ حقیقی کو پہچانے ، صرف اسی کی عبادت کرے اور ا س کے تمام احکام پر عمل کرے۔([2])

امام محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:  ’’آسمان اپنے ستاروں ،سورج، چاند، ان کی حرکت اور طلوع و غروب میں ان کی گردش کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔زمین کا مشاہدہ ا س کے پہاڑوں، معدنیات، نہروں، دریاؤں، حیوانات،نَباتات کے ساتھ ہوتا ہے اور آسمان اور زمین کے درمیان  جو فضا ہے اس کا مشاہدہ بادل،بارش،برف،گرج چمک، ٹوٹنے والے  ستاروں، اور تیز ہواؤں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔یہ وہ اَجناس ہیں جو آسمانوں ،زمینوں اور ان کے درمیان دیکھی جاتی ہیں ،پھر ان میں سے ہر جنس کی کئی اَنواع ہیں ، ہر نوع کی کئی اقسام ہیں ،ہر قسم کی کئی شاخیں ہیں اور صفات ،ہیئت اور ظاہری و باطنی معانی کے اختلاف کی وجہ سے اس کی تقسیم کا سلسلہ کہیں رکتا نہیں۔ زمین و آسمان کے جمادات،نباتات،حیوانات، فلکیات میں سے ایک ذرہ بھی اللہ تعالیٰ کے حرکت دئیے بغیر حرکت نہیں کرسکتا اور ان کی حرکت میں ایک حکمت ہو یا دو ،دس ہوں یا ہزار ، یہ سب اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہیں اور ا س کے جلال و کبریائی پر دلالت کرتی ہیں اور یہی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر دلالت کرنے والی نشانیاں اور علامات ہیں۔([3])

کائنات پر غوروفکر  کے فوائد و ثمرات

کائنات پر غوروفکر کرنے  کے بہت سے فوائد و ثمرات ہیں:

بندے پر  خالقِ کائنات کی عظمت و شان مزید واضح ہوجاتی ہے۔

 بندے کا وحدانیتِ الٰہی پر  یقین مزید مضبوط ہوجاتا ہے۔

 بندہ عظمتِ الٰہی کے سامنے عاجزی اختیار کرتاہے۔

بندہ جب  زمین و آسمان، آفتا ب و ماہتاب، اشجار و احجار الغرض کسی بھی مخلوق  کی تخلیق میں غوروفکر  کرتا ہے تو دل میں خالق کی  تعظیم  پیدا ہوتی ہے۔

خالقِ کائنات کی  عظمت و قدرت کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔

یونہی اللہ کریم کی قدرت و تخلیق کی گہرائیاں  جاننے پر دل میں اس کی خشیت اور ہیبت بڑھتی ہے۔

خالق و مالک کی محبت و خشیت دل میں بڑھنے سے مخلوق کے ساتھ شفقت و  حُسنِ خُلق کا جذبہ ملتاہے۔

بندے کا جب یقین کامل ہوجاتاہے کہ سب اختیارات کا مالک وہی ہے تو پھر اس کے علاوہ کسی کا ڈر اور خوف نہیں رکھتااور حق کو حق کہنے اور باطل کی تردید کرنے  میں رکاوٹ نہیں رہتی۔

مخلوقاتِ الٰہی میں غوروفکر کرنے سے دل زندہ ہوتا ہے، کیونکہ بندہ جو غوروفکر کرتاہے تو پھر ایک ہی  مقام پر رکا نہیں رہتا بلکہ مخلوقات کی مختلف انواع میں غور کرتا ہے،  ایک قراٰنی آیت سے دوسری کی طرف بڑھتاہے،  یوں قراٰنی آیات سے نصیحت حاصل کرتا ہے، معانی میں غور کرتاہے اور جیسے جیسے یہ غوروفکر بڑھتا ہے  بندے کے دل  پر مرادِ قراٰنی  منکشف ہوتی جاتی ہے، کیونکہ قرآنی الفاظ معانی اور تفکر کے پردے میں ہیں، جب غوروفکر کے بعد یہ پردہ ہٹتا ہے تو دل کی غفلت بھی زائل ہوجاتی ہے، اسی حیاتِ قلبی کو قراٰن کریم نے یوں بیان فرمایا ہے:

(وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاۚ-سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ(۱۹۱))

ترجَمۂ کنزالایمان: اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں اے رب ہمارے تو نے یہ بیکار نہ بنایا پاکی ہے تجھے تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔([4])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

مخلوقات میں غوروفکر سے بندے کو احکامِ الٰہیہ پر عمل کا جذبہ ملتاہے۔ بندے کی سوچ اور فکر جیسے جیسے بڑھتی ہے اس کی قوتِ فہم بھی بڑھتی ہے، اور جب فہم میں اضافہ ہوتا ہے علم بڑھتاہے اور جب علم آتاہے تو بندہ عمل کرتا ہے۔

بندے کا عقیدہ مضبوط ہوتا ہے اور کسی قسم کے شبہات کا شکار نہیں رہتا۔

اللہ کریم کی محبت دل میں بڑھتی ہے اور اللہ و رسول کی فرمانبرداری کا جذبہ بڑھتا ہے۔

اسلامی تعلیمات کے خلاف دل میں پیدا ہونے والے وساوس  کا اس غور و فکر کے ذریعےخاتمہ ہوجاتا ہے۔

یہ غور و فکر کرنا شرک سےاور  مشرکانہ حرکات و اعتقادات سے بچانےمیں  زبردست  معاون ثابت ہوتا ہے۔

فی زمانہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس کائنات میں غورو فکر کرنے اور ا س کے ذریعے اپنے رب تعالیٰ کے  کمال وجمال اور جلال کی معرفت حاصل کرنے اور اس کے احکام کی بجا آوری کرنے سے انتہائی غفلت کاشکار ہیں اور ان کے علم کی حد صرف یہ رہ گئی ہے جب بھوک لگی تو کھانا کھا لیا، جب پیاس لگی تو پانی پی لیا، جب کام کاج سے تھک گئے تو سو کر آرام کر لیا، جب شہوت نے بے تاب کیا  تو حلال یا حرام ذریعے سے اس کی بے تابی کو دور کر لیا اور جب کسی پر غصہ آیا تو ا س سے جھگڑا کر کے غصے کو ٹھنڈا کر لیا الغرض ہر کوئی اپنے تن کی آسانی میں مست نظر آرہا ہے۔([5])

امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اندھا وہ ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی تمام صَنعتوں کو دیکھے لیکن انہیں پیدا کرنے والے خالق کی عظمت سے مدہوش نہ ہو اوراس کے جلال و جمال پر عاشق نہ ہو۔ ایسا بے عقل انسان حیوانوں کی طرح ہے جو فطرت کے عجائبات اور اپنے جسم میں غور و فکر نہ کرے،اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عقل جو تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے اسے ضائع کر دے اور ا س سے زیادہ علم نہ رکھے کہ جب بھوک لگے تو کھانا کھا لیا،کسی پر غصہ آئے تو جھگڑا کر لیا۔ ([6])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ، نائب مدیر ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی



([1])احیاء علوم الدین، مترجم،5/190

([2])صراط الجنان،2 / 123

([3])احیاء علوم الدین، ۵ / ۱۷۵

([4])پ4، اٰل عمران، الآیۃ:191

([5])صراط الجنان، 2 / 123، 124

([6])کیمیائے سعادت،  2/ 910


Share