ماہ محرم کی خیرات و حسنات

اسلاف کے قلم سے

ماہ محرم کی خیرات وحسنات

* صدرالافاضل مفتی سید نعیم الدین مرادآبادی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2024ء


خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرُالافاضل حضرت مفتی سیّد نعیم الدین مرادآبادی رحمۃُ اللہِ علیہ ایک حاذق مفتی، دوراندیش عالم اور صاحب حکمت  ہستی تھے، آپ کے مقالات آپ کے ان اوصافِ جلیلہ کےبین ثبوت ہیں، آپ نے نئے اسلامی سال کی آمد پر اہلِ اسلام کو بڑے ہی پُر حکمت انداز میں نصائح فرمائیں ہیں، سال 1446ہجری کا آغاز ہوا چاہتا ہے، اس مناسبت سے ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین کو آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کی انہی نصیحتوں میں سے چند اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں:

ماہِ محرم سال کا پہلا مہینہ ہے۔ اسلامی سال اسی مہینہ سے شروع ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی زندگی کے لئے سال بھر کے بعد پھر ایک نیا عہد آتا ہے۔ گزرے ہوئے سال میں جو افراط و تفریط یا فروگزاشتیں ہوئی ہوں اور ذخیرهٔ آخرت بہم پہنچانے میں جو کوتاہی ہوگئی ہو۔ نئے سال سے مسلمان کو اس کی تلافی کی فکر ہونا چاہئے۔ زندگی کے اوقات غنیمت سمجھ کر اپنے امکان و مقدور تک نیکیوں کا سرمایہ جمع کرنا چاہئے۔ زندگی کے گزرے ہوئے کارنامے کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا چاہئے کہ ہم سے کیا کیا غلطیاں سرزَد ہوئیں تا کہ آئندہ کے لئے ان سے احتیاط رہے۔ اور اگر ممکن ہو سکے اور کوئی صورت تلافی مافات کی نظر آئے تو عمل میں لانا چاہئے۔ اور آنے والے سال کا استقبال نیکیوں سے کیا جائے۔ مسلمان کو یہی تعلیم دی گئی ہے اور اسلام کا یہی درس ہے کہ مسلمان ہر ایک وقت کو اللہ کی طاعت و عبادت میں مشغول کرے اور نئے عہد میں نیکیاں اس کے ساتھ ہوں۔

دنیا کے تمام لوگ اور عالَم کی ساری قو میں وقت کا احترام کرتی ہیں لیکن طریقے مختلف ہیں۔ امرا و سلاطین کے یہاں وقتی تغیرات کا نَوبَتوں اور توپوں کی آوازوں سے خیر مقدم کیا جاتا ہے۔ رات کی تاریکی کے بعد جب صبح کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو نَوبَتیں بجنی شروع ہو جاتی ہیں۔ پھر جب دن کی گرمی اور روشنی حدِ کمال کو پہنچتی ہے اور آفتاب ڈھلنے کا وقت آتا ہے تو پھر نَوبَتیں بجتی ہیں تو پیں چلتی ہیں۔ اس کے بعد جب دن کی عمر آخر ہوتی ہے اور آفتاب کی زردی سکراتِ موت کی طرح دن کے خاتمے کی خبر دیتی ہے، رات کی آمد آمد ہوتی ہے، اس وقت پھر نقاروں پر چوبیں پڑتی ہیں۔ اسی طرح موسمی تغیرات کے موقعوں پر جشن منائے جاتے ہیں۔ غرض ہر قوم تغیراتِ اوقات کے لئے اپنے حسبِ لیاقت کچھ نہ کچھ کرتی ہی ہے لیکن جو کچھ کرتے ہیں یہ اضاعتِ وقت و مال کے سوا اور کوئی مفید نتیجہ نہیں رکھتا۔ انسان کھیل میں مشغول ہو گئے، لہو و لعب میں وقت گزارے۔ خاک اُڑا کرانسانیت کو برباد کیا۔ وحشیانہ افعال کر کے بہیمت(حیوانیت) کا ثبوت دیا تو کوئی کارآمد بات نہیں بلکہ افسوس ناک اور لائق عبرت بات ہے۔

اسلام نے دنیا سے وحشت، بے تہذیبی، بدمستی، بہیمی (حیوانیت والی)حرکات اور غفلت پیدا کرنے والے افعال و کردار سے اپنے عقیدت کیشوں کو روکا اور ہر وقتی تغیر کے ساتھ ان کو یادِ خدا، طاعت و عبادت، خیرات و حسنات کی طرف مشغول کیا۔ مسلمان کے سامنے آخرت کا نقشہ ایسا نَصبُ العین کر دیا کہ وہ کسی حال میں اس سے غافل نہ ہو اور مسلمان کی پاک زندگی کا لمحہ لمحہ یادِ الٰہی سے منور رہے اور بندے کی روحانیت مادی تاریکی سے بے نور نہ ہونے پائے۔

ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے صحنِ عالَم میں قدم رکھتا ہے، آنکھ کھولنے اور بات سننے سے پہلے طہارت کے بعد سب سے اول اس کے کانوں میں کلماتِ حق پہنچائے جاتے ہیں۔ توحید ورسالت کی شہادتیں اور عبادت کی دعوت اس نئے مہمان کو آتے ہی دی جاتی ہے اور اس طریق عمل سے مسلمانوں کو سکھایا جاتا ہے کہ مسلمان کا فَرْزَنداپنی حیات کے ابتدائی اَنفاس سے اللہ و رسول جل وعلا، صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور ان کی یاد کے ساتھ دنیا میں لیا گیا ہے اور آغوشِ دایہ و پستانِ مادر سے آشنا ہونے سے قبل بھی اس کو اس کے دین اور اس کے پروردگار کی یاد دلائی گئی ہے۔ جو کام اتنا اہم ہے جو مقصد اتنا ضروری ہے وہ زندگانی کے اور دوسرے اوقات میں کس طرح فراموش کیا جا سکے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس بچہ کی تربیت یادِ الٰہی کے ساتھ ہو اور قدم قدم پر اس کو دین کے درس دیے جائیں۔ کبھی عقیقہ ہوتا ہے وہاں اس مولود کی آمد کی خوشی میں شکرِ الٰہی بجالانے کے لئے قربانی دی جاتی ہے اور دوست احباب اور اہلِ حاجت کو علیٰ حسبِ حیثیت و مقدرت ضیافتیں دی جاتی ہیں۔ کبھی بِسمِ اللہ کی تقریب ہوتی ہے بچپن کی عمر میں ہوش کے وقت کا اور علمی زندگی کے آغاز کا یا دِالٰہی اور دعوتِ احباب سے استقبال کیا جاتا ہے۔ ہر مقام پر توجہ الیٰ اللہ کی رعایت ملحوظ ہے۔ کہیں بھی لغویات اور لہو و لعب کی طرف دین و شریعت نے مشغول نہیں رکھا۔ اسی طرح زندگی کے آنے والے تمام اوقات کو نیکیوں کے لئے محرک اور یادگار بنایا جاتا ہے حتی کہ دن بھر کام کر کے شب کو بستر پر آئے اور آرام کرنے کی نیت کرے تو وقتِ خواب جو راحت اور غفلت کا وقت ہوگا اس کا استقبال بھی روح کو زندہ کرنے والی نعمتوں سے کیا جائے،تعلیم یہ دی جاتی ہے کہ سونے سے پہلے اِستِغفار پڑھے، آیتُ الکُرسی پڑھے، شَہادَتَین پڑھے، دُرود شریف پڑھتے پڑھتے سو جائے۔ سوتے سے آنکھ کھلے تو زبان پر کلمہ جاری ہو جو زندگی اس کی عادی ہو گئی اور جو شخص تمام عمر اس کا خوگر رہا ہوگا، امید ہے کہ وہ خوابِ موت کا استقبال بھی اسی طرح ذکرِ حق کے ساتھ کرے اور اس خوابِ گراں کے بعد جب دوسری زندگی کے لئے اُٹھایا جائے تو اِنْ شآءَ اللہ تعالیٰ کلمہ پڑھتا ہوا ہی اُٹھے۔

غرض ہر آنے والا وقت اور زمانہ کا ہر ایک اہمیت رکھنے والا انقلاب، مسلمان کے لئے طاعت و یادِ الٰہی کا محرک بنایا گیا ہے۔ چاند کو گرہن لگے یا سورج کو، مسلمان کو عبادتِ الٰہی میں مصروف ہونے اور اپنے پروردگار کی بندگی بجالانے نماز پڑھنے کا حکم ہے۔

اسی طرح اوقات کے تجدد میں سال نَو اہمیت رکھنے والی چیز ہے۔ اس کا استقبال بھی مسلمان طاعات و عبادات، خیرات و حسنات، وذكرِ حق و مقبولانِ بارگاہِ حق سے کرے گا۔

اس لئے مسلمانوں کا معمول ہے کہ ان ایام میں روزے رکھتے ہیں بکثرت خیراتیں دیتے ہیں۔ راہِ خدا میں مال صَرف کرتے ہیں، اہلِ بیتِ رسالت و نبوت نے ان ایام میں دینِ حق و عشقِ الٰہی میں جانیں قربان کیں، خون بہائے، گھر لٹائے، اپنے نَو نہال نثار کئے۔ یہ اُن کے حوصلہ کی بلندی اور ان کے پایہ کی برتری ہے۔

مسلمان ان ایام میں شہدائے کربلا کا، ان کے ایثار و اخلاص کا، ان کی اولوالعزمی و ثابت قدمی کا، ان کی حق کوشی و ناحق کشی کا ذکر کرتے ہیں۔ شہادت کی مجلسیں منعقد ہوتی ہیں۔ اہلِ بیت کی حمایتِ ملت کا عجیب و غریب منظر دکھایا جاتا ہے۔ یہ مجالس در حقیقت ذکرِ الٰہی کی مجالس ہیں جو اعلیٰ موعظت و تذکیر پر مشتمل ہیں۔ ان مجالس میں شامل ہونے سے قلوب میں رقت اور اعمالِ صالحہ کی رغبت پیدا ہوتی ہے۔ حق کی حمایت کے جذبات دلوں میں جاگزیں ہوتے ہیں۔ ایسی مجالس کا منعقد کرنا باعث اجر و ثواب ہے کیوں کہ تذکیر کی مجالس مجالسِ ذکر ہیں۔

ان ایامِ متبرکہ میں مسلمان بالعموم حسنات و خیرات کی طرف بہت مائل رہتے ہیں۔ پانی، شربت کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں۔ مساکین کو کھانے کھلائے جاتے ہیں۔ قسم قسم کے اَطْعِمَہ تقسیم کئے جاتے ہیں جس کو لنگر کہتے ہیں۔ کھچڑا پکتا ہے اور حضراتِ اِمَامَین اور ان کے ہمراہیوں کی فاتحہ دے کر ایصالِ ثواب کیا جاتا ہے۔ ان ایام کے معمولات میں سے روزہ بہ کثرت مسلمان دسویں کو اور بعض نویں اور دسویں دونوں کو روزہ رکھتے ہیں۔

(یادرہے!)اوقاتِ متبرکہ میں جیسے نیکی زیادہ اجر و ثواب کا موجب ہوتی ہے۔ ایسے ہی بدی بھی زیادہ خُسران اور ملامت کا موجب ہوتی ہے۔ جہاں نیک دل لوگ خیرات و مبرات میں مشغول رہتے ہیں، اہلِ ہوا اپنے حرص و ہوس اور لغویات میں مبارک اوقات کو ضائع کر دیتے ہیں۔ محرم کے ایام میں تعزیہ داری کے ساتھ ساتھ لہو ولعب اور تصویر سازی میں بھی بعض لوگ مشغول ہوتے ہیں۔ دلدلیں اور حوریں اور گھوڑے اور آدمی کی تصویریں بناتے ہیں۔ بعض بعض مقامات پر انسان، شیر اور ریچھ کے روپ بھرتے ہیں اور مبارک اوقات کو لہو و لعب اور فسق و فجور میں ضائع کر دیتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں کہ اس وقت میں کسبِ خیر اور حسنِ عمل سے محروم رہے، بلکہ کبائر میں غرق ہو کر انہوں نے اپنے نامۂ اعمال کو بدیوں سے بھر دیا۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ان امور سے روکنے کی پوری کوشش کریں اور اس قسم کے تماشہ کرنے اور سانگ کھیلنے والوں کو اخلاقی طور پر ایسا عبرت ناک سبق دیں کہ آئندہ وہ ایسے اعمال و افعال کے لئے جرات و ہمت نہ کریں۔ یہ لوگ اپنی جہالت سے وہ افعال کرتے ہیں جو دین و ملت کے ننگ و عار ہیں اور اس سے دنیا کے لوگ مسلمانوں کی نسبت بُری رائے قائم کرتے اور خراب نتیجہ نکالتے ہیں اور در حقیقت یہ شرم ناک افعال جہالت کی دستاویز ہیں جو لوگ ان لغویات میں مبتلا ہیں نہ انہیں اپنے فرائض معلوم ہیں۔ نہ دین وملت کے احکام سے کچھ خبر رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت کرے اور ان افعال و کردار سے بچائے۔ آمین۔(مقالاتِ صدرالافاضل، اقتباسات مضمون”ماہِ محرم کے خیرات و حسنات“، ص236تا 249)


Share