اپنی غلطی مان لیجئے

درس ِکتاب زندگی

اپنی غلطی مان لیجئے

*مولاناابو رجب محمد آصف عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2024ء


غلطی کس سے نہیں ہوتی، اَلْاِنْسَانُ مُرَكَّبٌ مِّنَ السَّهْوِ وَالنِّسْيَانِ یعنی انسان خطا اور نسیان کا مرکب ہے۔([1])اس حوالے سے ہمیں کئی قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے ؛

(1)وہ جنہیں اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے اور وہ اس کی معافی بھی مانگ لیتے ہیں۔

 (2)وہ جنہیں اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہےلیکن وہ اپنے کئے کی معافی نہیں مانگتے۔

(3)وہ جنہیں اپنی غلطی کا احساس نہیں ہوتا اور نہ وہ اس کی معافی مانگتے ہیں۔ ان میں سے پہلی قسم کے لوگ دنیا و آخرت میں کامیابیاں سمیٹتے ہیں۔

جب غلطی کی نشاندہی ہو اسی وقت اپنی غلطی کو تسلیم کر کے معذرت کر لیں تو بات چند سیکنڈز میں ختم ہو سکتی ہے،مگر دوسری قسم میں شامل کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن سے کوئی غلطی ہوجائے تو اسے تسلیم نہیں کرتے بلکہ سمجھانے پر اس بات پر دلائل دینا شروع کردیتے ہیں کہ ہماری تو کوئی غلطی ہی نہیں تھی لیکن آخر کار ان کے دلائل کمزور ثابت ہوتے ہیں اور انہیں اپنی غلطی ماننی ہی پڑتی ہے اور سوری کہنا پڑتا ہے۔

اسلامی احکام سکھانے کے حوالے سے زبردست پرسنالٹی مفتیِ اسلام ہے۔لیکن ان کے لئے بھی فقہائے کرام نےغلطی تسلیم کرنے کے بارے میں کیا تاکید کر رکھی ہے،توجہ سے پڑھئے چنانچہ صدر الشریعہ بد ر الطریقہ حضرت علّامہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ نے 500 بہترین علمائے دین کی مرتب کردہ کتاب فتاویٰ عالمگیری سے نقل کیا: مفتی کے لئے یہ ضروری ہے کہ بردبار خوش خلق ہنس مکھ ہو نرمی کے ساتھ بات کرے غلطی ہو جائے تو واپس لے اپنی غلطی سے رجوع کرنے میں کبھی دریغ نہ کرے یہ نہ سمجھے کہ مجھے لوگ کیا کہیں گے کہ غلط فتویٰ دے کر رجوع نہ کرنا حیا سے ہو یا تکبر سے بہرحال حرام ہے۔([2])

غلطی ہوجانے پر رجوع کے واقعات

دینی بزرگ خطا اور سہوہوجانے کےبعد نہ صرف اس کو تسلیم کرتے تھے بلکہ اس کا ازالہ اور وضاحت بھی کردیا کرتے تھے اسے اپنی شان کے خلاف نہیں سمجھتے تھے،بطورِ مثال چند حیران کن واقعات پڑھئے، چنانچہ

(1)تم نے صحیح کہا  حضرت عبد الرحمٰن بن مَہدِی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : ہم ایک جنازے میں شریک تھے جس میں بصرہ کے قاضی حضرت عبیدُ اللہ بن حسن عَنْبَری رحمۃُ اللہِ علیہ بھی تشریف لائے ہوئے تھے، لوگوں میں آپ کا بہت مقام و مرتبہ تھا، وہاں آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے کوئی مسئلہ بیان کیا جس میں آپ سے سہو ہوگیا (یعنی غلطی ہوگئی)۔ میں اس وقت کم سِن تھا مگر میں نے عرض کی : عالیجاہ ! مسئلہ یوں نہیں ہے، آپ حدیث مبارکہ پر غور کرلیں۔ یہ سن کر لوگ مجھ پر چڑھائی کرنے لگے مگر قاضی صاحب نے فرمایا : اسے کچھ مت کہو ! (پھر مجھ سے پوچھا:) یہ مسئلہ پھر کیسے ہے ؟ میں نے مسئلہ عرض کردیا۔ حالانکہ میں بہت چھوٹا تھا پھر بھی آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے سن کر ارشاد فرمایا : بیٹا!تم نے صحیح کہا، میں تمہارے قول کی طرف رجوع کرتا ہوں۔([3])

(2)باقاعدہ اعلان کروایا بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت حسن بن زِیاد رحمۃُ اللہِ علیہ سے کسی شخص نے سُوال کیا، آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے اس کو جواب دیا لیکن اس میں تسامُح ہو گیا(یعنی غلطی ہو گئی) اُس شخص کو جانتے نہیں تھے لہٰذا اس غَلَطی کی تَلافی (اِزالے) کے لئے آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے ایک شخص کو بطورِ اَجیر (یعنی اُجرت پر) لیا جو یہ اعلان کرتاتھا کہ: جس نے فُلاں دن، فُلاں مسئلہ پوچھا تھا اس کے دُرُست جواب کے لئے حضرت سیِّدُنا حسن بن زِیاد رحمۃُ اللہِ علیہ کی طرف رُجوع کرے۔ حضرت سیِّدُنا حسن بن زِیاد رحمۃُ اللہِ علیہ نے کئی روز تک فتویٰ نہیں دیا یہاں تک کہ وہ (مطلوبہ) شخص آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کی خدمتِ بابَرَکت میں حاضِر ہوا اور آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے اُس کو دُرُست مسئلہ بتایا۔([4])

(3)درست مسئلہ بتانے کیلئے ننگے پاؤں بھاگے حضرت شیخ جلیل ابوالحسن رحمۃُ اللہِ علیہ کے پاس ایک عورت آئی اور ایک شَرعی مسئلے کے بارے میں فتویٰ لیا اوررُخصت ہوگئی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ شیخ جلیل رحمۃُ اللہِ علیہ ایک دم پریشان ہوکر اُٹھے اور ننگے پاؤں اس عورت کے پیچھے گئے، اس سے فتویٰ واپس لیا اور لو ٹ آئے۔ آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کے شاگردوں نے جب اس بارے میں دریافت کیا تو فرمایا: میرے دل میں یہ بات کھٹکی کہ مجھے جواب دینے میں کچھ وہم ہوا ہے اس لئے میں فتویٰ واپس لینے کے لئے خود گیا کہ وہ عورت کہیں دور نہ نکل جائے۔شاگردوں نے عَرض کی: حضور!آپ ہمیں فرمادیتے! فرمایا : اوّل تو یہ تمہارا کام نہیں تھا پھر اگر میں تمہیں کہہ بھی دیتا تو تم اپنے جوتے پہن کر آرام آرام سے جاتے اور تمہیں یہ بھی پتا نہ چلتا کہ وہ عورت کس طرف گئی ہے۔([5])

(4) پیشگی اعلان کردیتے ہیں امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ جب بھی (سوال جواب کا سلسلہ) مدنی مذاکرہ فرماتے ہیں تو اس کے شروع میں یہ بھی فرماتے ہیں: ”آپ سوالات کیجئے، ہر سوال کا جواب اور وہ بھی بالصواب (یعنی بالکل دُرُست) دے پاؤں یہ ضروری نہیں، اگر بھول کرتا پائیں تو فوراً میری اِصلاح فرمائیں، مجھے آئیں بائیں شائیں کرتا، اپنے مؤقف پر بلا وجہ اَڑتا نہیں بلکہ شکریہ کے ساتھ رجوع کرتا پائیں گے۔“ اگر مدنی مذاکرے کے دوران کبھی کوئی غلطی ہو بھی جائے تو آپ دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ توجہ دلانے پر نہ صرف اس سے رجوع فرماتے ہیں بلکہ ضرورتاً اس کی تشہیر بھی کرتے ہیں تاکہ دُرست مسئلہ ہر ایک تک پہنچ سکے۔

اسی طرح کسی کو مسئلہ بتانے میں معمولی سی بھی کمی بیشی ہوجاتی تو آپ دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ فوراً مسئلہ پوچھنے والے کو دُرست مسئلہ بتاتے ہیں جیسا کہ ایک بار آپ دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کے پاس کوئی مسئلہ معلوم کرنے آیا، آپ نے اس کو مسئلہ بتا دیا اور وہ مسئلہ معلوم کرکے چلا گیا، اس مسئلے کا کوئی حصہ رہ گیا تھا جو آپ اس اسلامی بھائی کو نہیں بتا سکے تو آپ دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ فوراً اس اسلامی بھائی کے پیچھے گئے اور اس کو مسئلے کا وہ حصہ بھی بتا دیا۔

اللہ پاک ہمیں اپنی غلطی مان لینے کی راہ میں رکاوٹ بننے والی تمام چیزوں مثلاً شرم اور تکبراور سستی کو دور کرنے اور اپنی غلطی مان لینے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* چیف ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ، رکن مجلس المدینۃ العلمیہ کراچی



([1])روح البیان، 3/548

([2])دیکھئے: فتاویٰ عالمگیری، 3/309-بہارِ شریعت، 2/912

([3])حلیۃ الاولیاء،9/6، رقم : 12855

([4])اَدبُ المُفتِی والمُسْتَفْتِی لابْنِ الصَّلاح،ص 46ملخصاً

([5])المدخل لابن الحاج،جز1، 1/305


Share