رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا قیدیوں  کے ساتھ انداز

انداز میرے حضور کے

 رسولُ اللہ کا قیدیوں کے ساتھ انداز

*مولانا محمدناصرجمال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2024ء

اللہ کےآخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تشریف لانے سے پہلے مخلوقِ خدا پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جاتے تھے اُس وقت نہ تو جنگی اخلاقیات کا کوئی تصور تھا اور نہ ہی قیدیوں کے کوئی حقوق تھےاِس لئے قیدی دل ہلادینے والی اذیتوں اور تکلیفوں کا سامنا کرتے تھے۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے انداز سےدنیا کو یہ بتایا کہ قیدی بھی انسان ہیں اور اِن کےبھی حقوق ہیں،آئیے!قیدیوں کے ساتھ اندازِ مصطفےٰ کی چند جھلکیاں ملاحظہ کرتے ہیں:

(1)اسلام کے دشمنوں نےرسولِ کریم کی شفقت و کرم نوازیاں کئی مرتبہ دیکھی تھیں وہ لوگ تمام تر عداوت و دشمنی رکھنے کے باوجود آپ کو کریم سمجھتے تھے چنانچہ ایک موقع پر جب یہ لوگ قیدی بن کر آئے تو رحمت ِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِن سے پوچھا:تمہیں کیا لگتا ہےکہ میں تمہارے ساتھ کیا کروں گا؟ اُن لوگوں نےعرض کی: خَيْرًا، اَخٌ كَرِيمٌ وَابْنُ اَخٍ كَرِيم یعنی آپ بھلائی کریں گے کیوں کہ آپ کرم نواز ہیں اور کرم نواز بھائی کے بیٹے ہیں۔چنانچہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُن لوگوں کو آزاد کردیا۔ ([1])

(2)نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک فوجی دستہ قبیلۂ نجد کی طرف روانہ فرمایا، حضرت ثمامہ بن اُثال رضی اللہُ عنہ یمامہ کے سردار تھے اور ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے، یہ دستہ آپ کو گرفتار کرکے مدینۂ منورہ لایا اور ایک ستون سے باندھ دیا۔رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وہاں سے گزر ہوا تو آپ نے اِن سے اپنے بارے میں رائے لی تو آپ نے اچھی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا: اِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، وَاِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِر یعنی اگر آپ جان سے مار دیں تو آپ اِس سزا کے حق دار کو قتل کریں گے، اگر(قید سے رہا کرکے) انعام کریں تو آپ ایک شکر یہ ادا کرنے والے پر انعام کریں گے، اگر آپ دولت چاہتے ہیں تو وہ بتادیں جتنا آپ چاہیں گے اتنا آپ کو دیا جائے گا۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو چھوڑ دیا پھر اگلے دن تشریف لا کر یہی پوچھا، آپ نے یہی جواب دیا، تیسرے دن پوچھنے پر جب وہی جواب دیا تو رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو قید سے رِہا کردیا۔ دنیا کی قید سے تو آپ آزاد ہوگئے مگر اندازِ مصطفےٰ کچھ ایسا بھایا کہ پہلے غسل کیا اور پھر ایمان لاکر سیّدِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی غلامی میں آگئے۔([2])

(3)اللہ کریم ارشادفرماتاہے:

(وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا(۸))

ترجَمۂ کنز العرفان: اور وہ اللہ کی محبت میں  مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔([3])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

 اس آیت کاایک معنیٰ یہ ہے کہ اللہ پاک کے نیک بندے ایسی حالت میں بھی مسکین،یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں جب کہ خودانہیں کھانے کی حاجت اور خواہش ہوتی ہے۔ دوسرا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ پاک کے نیک بندے مسکین،یتیم اور قیدی کو اللہ پاک کی محبت میں اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے کھانا کھلاتے ہیں۔([4])

 بلاشبہ رحمت ِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابَۂ کرام علیہمُ الرّضوان کو اپنے فرامین و کردار کے ذریعے قراٰن پاک پر عمل کرنا سکھایا ہے اُسی تربیت میں یہ آیت بھی شامل ہےکہ درسگاہِ مصطفےٰ میں بیٹھ کر اِن ہدایت کے ستاروں نے یتیموں، مسکینوں اور قیدیوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنے کی تعلیم وتربیت حاصل کی اور میدان ِ عمل میں اِس کاعملی اظہار بھی کیا چنانچہ جب جنگِ بد ر میں حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہُ عنہ کے بھائی بھی قیدی بنے تھے اِس کے باوجود وہ خود اپنے ساتھ کئے جانے والےحسنِ سلوک کویوں بیان کرتے ہیں:میں بدرکے دن قیدیوں میں شامل تھا،اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ”اِسْتَوْصُوا بِالْأُسَارَى خَيْرًا یعنی قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔“میں انصارکی حراست میں ایک گروہ کے ساتھ قید تھا، اللہ اُن کو عمدہ بدلہ دےوہ جب بھی صبح و شام کھانا کھاتے تو خود کھجور سے کام چلالیتے اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی وصیت کی وجہ سے مجھے روٹی کھلاتے۔ جس کے ہاتھ بھی روٹی آتی وہ مجھے لا کر دے دیتا۔ مجھے اکیلے کھاتے ہوئے شرم آتی تو میں وہ روٹی اسے واپس کردیتا مگر وہ اسے ہاتھ بھی نہ لگاتا اور مجھے زبردستی دے دیتا۔([5])

کھجور کے مقابلے میں روٹی قیمتی بھی تھی اور کم بھی تھی، اِس کے باوجود آپ نے ملاحظہ کیا کہ بارگاہِ رسالت سے کی جانے والی حسنِ سلوک کی تاکید میں کتنا اثر تھاکہ قیمتی چیز قیدیوں کو دی جاتی تھی تاکہ حسنِ سلوک کیاجاسکے۔

(4) قیدیوں کی آزادی کے لئے مختلف انداز تھے مثلاً:

*کبھی فدیہ لے کر اُنہیں آزاد کیا گیا جیسے جو فدیے میں مال نہیں دے سکتے تھے اُن کے لئے مال کا متبادل مقرر کیا گیا جیسے بدر کے وہ قیدی جو فدیے میں مال نہیں دے سکتے تھے اُن کے لئے لکھنا سکھانے کو فدیہ قراردے دیا گیا۔([6])

*اسی طرح کئی مواقع ایسے آئےکہ جس میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فدیہ ادا فرمایا چنانچہ غزوۂ بنی مصطلق میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اورکئی افراد قید ہوئے جن میں قبیلےکے سردار حارِث بن ضِرَار کی بیٹی حضرت جُویریہ بنتِ حارِث رضی اللہُ عنہا بھی تھیں، انہوں نے قید سے آزاد ہوکر اپنے قبیلے جانے کے بجائے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نکاح میں آنے کو ترجیح دی۔

جب رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس نکاح کی خبر دیگر مسلمانوں کو ہوئی تو انہوں نے حضرت جویریہ رضی اللہُ عنہا کے قبیلے کے سبھی قیدیوں کو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سسرالی رشتہ کا احترام کرتے ہوئے آزاد کردیا، آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ اِن میں سو خاندانوں کے افراد کو رہائی نصیب ہوئی۔ اسی لئے حضرت عائشہ صِدّیقہ رضی اللہُ عنہا اسے بہت زیادہ خیر وبرکت والا نکاح قرار دیتے ہوئے فرماتی ہیں: فَمَا رَاَیْنَا اِمْرَاَۃً کَانَتْ اَعْظَمَ بَرَکَۃً عَلٰی قَوْمِھَا مِنْھَا یعنی قوم پر خیر و برکت لانے والی کوئی عورت ہم نے حضرت جُوَیْرِیہ رضی اللہُ عنہا سےبڑھ کر نہیں دیکھی۔([7])

*ایسا بھی ہوا کہ فدیہ لئے بغیر قیدیوں کو آزاد کردیا گیا جیسا کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ارشاد پر قبیلۂ ہوازن کے قیدیوں کو بلامعاوضہ رہائی نصیب ہوئی۔([8])اسی طرح جنگ ِبدر کے موقع پر کچھ قیدی وہ تھے جن کو بلامعاوضہ آزادی ملی۔([9])

آج بھی ہم قیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کے یہ انداز اپنا لیں تو جرائم رُک سکتے ہیں،امن و امان میں اضافہ ہوسکتا ہے اور اچھے لوگوں کی تعداد تیزی کے ساتھ بڑھ سکتی ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*ذمہ دار شعبہ فیضان حدیث، المدینۃ العلمیہ کراچی



([1])سنن کبری للبیہقی،9/200،تحت الحدیث:18276

([2])بخاری،3/131، حدیث:4372، ابو داود،3/77،حدیث:2679

([3])پ29،الدھر:8

([4])مدارک، الدھر،تحت الایۃ: 8، ص1306

([5])معجم صغیر،1/146-سیرت ابن ہشام،ص267

([6])طبقات لابن سعد،2/16

([7])ابو داود، 4/30، حدیث: 3931- سیرت حلبیہ،2/379

([8])بخاری، 3/111، حدیث:4318، 4319

([9])سیرت ابن ہشام،ص273


Share